عہد فاروقی میں مال غنیمت کی تقسیم کاری
امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا مال غنیمت کی تقسیم کا طریقہ وہی تھا جس کا ذکر قرآن پاک میں اللہ عزوجل نے فرمایا کہ اس کاخمس نکال کر بقیہ تمام مجاہدین میں تقسیم فرمادیا کرتے تھے خمس کے بھی جو مصارف تھے اسے بھی ان میں خرچ فرمایا کرتے تھے ۔
خمس سے خاندان رسول اللہ کی خیر خواہی :
حضرت سید نا امام زہری علیہ رحمۃ اللہ القوی سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی الله تعالی عنہ نے ارشادفرمایا : اگر عراق کے مال غنیمت میں سے خمس آ گیا تو میں کسی ہاشمی کو نکاح کروائے بغیر نہ چھوڑوں گا اور جس کے پاس کنیز نہ ہو گی اسے خدمت گزار کنیز فراہم کروں گا ۔ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوا کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ رسول الله صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے بے حد محبت فرمایا کرتے تھے اور اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کے خاندان کا خادم سمجھتے تھے ، حالانکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد پوری امت میں سب سے افضل ہیں ۔
عورتوں والا بیگ سیدہ عائشہ کو دے دیا :
أم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے آزاد کردہ غلام حضرت سید نا ذکوان رحمہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس خواتین والا تھیلا( Ladies Bag ) آیا ۔اکثر صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اسے دیکھا لیکن اس کی قیمت کا اندازہ نہ لگا سکے ۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : اگر آپ لوگ اجازت دیں تو میں اسے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالى عنها کے پاس بھیج دوں کیونکہ رسول الله صلى اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ان سے بہت زیادہ محبت فرمایا کرتے تھے ۔ سب نے بخوشی اجازت دے دی تو سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کو وہ بیگ بھیج دیا گیا ۔
یہ مال عمر یا ان کی اولاد کا نہیں :
حضرت سیدناحسن رحمہ اللہ تعالی علیہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ کولکھا کہ لوگوں کو ان کے وظیفے اور عطیات دے دو ۔ انہوں نے تقسیم کر دیے لیکن مال بچ گیا ، لہذا انہوں نے جوابا سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کولکھا کہ تقسیم کرنے کے بعد بھی مال بچ گیا ہے ۔ سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے دوبارہ لکھا :جو مال باقی بچ گیا ہے وہ بھی انہیں میں تقسیم کر دو کیونکہ یہ ان ہی کا مال ہے جو اللہ تعالی نے ان کو دیا ہے ، یہ مال عمر یا ان کی اولا دکانہیں ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! یادر کھیے ! وقف کا وہ مال جو کسی مخصوص مد میں دیا گیا ہو اسے اس مد میں خرچ کرنا ضروری ہے اس کے علاوہ دیگر جگہوں میں خرچ نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کے استعمال میں ہر طرح کی احتیاط کیجئے ۔
اپنے اہل خانہ پر دوسروں کو ترجیح :
حضرت سیدنا ثعلبہ بن ابی مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے مدینہ طیبہ کی عورتوں میں ریشمی چادریں تقسیم کیں ، جن میں سے ایک عمدہ چادر بچ گئی ۔ بعض لوگوں نے کہا : اے امیر المومنین ! یہ چادر اپنی زوجہ حضرت سیدنا ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کو دے دیں ۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فر مایا : ام سلیط اس کی زیادہ حق دار ہیں کیونکہ انہوں نے حضور نبی پاک ، صاحب لولاک صلی اللہ تعال علیہ و سلم کی بیعت کی ہے اور جنگ احد میں ہمارے لیے مشکیزے اٹھا کر لایا کرتی تھیں ۔
پندرہ ہزار درہم کا ہار دے دیا :
واضح رہے کہ جنگ میں عموماً ایسا ہوتا تھا کہ اولا دونوں لشکروں کے بہادر سپاہی فردا فردا یعنی ایک ایک کر کے مقابلے کے لیے میدان میں آتے تھے ، اس صورت مخصوصہ کا قاعدہ یہ تھا کہ اگر کوئی مسلمان مقابلے میں کسی کافر کوقتل کردیا تو اس کافر کا سارا ساز وسامان اس مقابلہ کرنے والے مسلمان کو دے دیا جا تا تھا ، اسے جنگ کے بعد جمع کیے جانے والے مال غنیمت میں شامل نہیں کیا جا تا تھا ۔ چنانچہ حضرت سیدنا عبد الله بن عبيد بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت سیدنا قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا تو انہوں نے ایک فارسی بادشاہ کوقتل کر دیا ۔ اس کا ایک انتہائی قیمتی ہار تھا جس کی قیمت پندرہ ہزار درہم تھی ، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ ہار حضرت سیدنا قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کو دے دیا ۔
پیدل کے لیے ایک ٬ سوار کے لیے دگنا حصہ :
مال غنیمت کا ایک اصول یہ بھی تھا گھڑ سوارفو جی کو دو حصے ایک اس کا اور ایک اس کی سواری کا دیا جا تا تھا جبکہ پیدل فوجی کو فقط ایک ہی حصہ صرف اس کی ذات کا دیا جا تا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کولکھا کہ عربی گھڑ سوار کے لیے دو حصے ، پیدل کے لیے ایک حصہ اور خچر والے کے لیے بھی ایک ہی حصہ ہے۔
مال فے میں تمام لوگوں کا حصہ ہے :
حضرت سیدنا مالک بن اوس بن حدثان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے روایت ہے کہ ایک بارامیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے مال فے ( یعنی بغیر جنگ کے دشمنوں سے حاصل ہونے والے مال ) کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : اللہ عزوجل کی قسم اس مال فے کا صرف میں ہی حقدار نہیں بلکہ ہم میں سے ہر شخص اس کا حق دار ہے اور اللہ عزوجل کی قسم مسلمانوں میں سے غلاموں کے علاوہ کوئی بھی شخص ایسانہیں ہے جس کا اس مال فے میں حصہ نہ ہو ، البتہ اس کی تقسیم قرآن وسنت کے بیان کردہ درجات کے مطابق ہوگی جس میں کسی کا قدیم الاسلام ہونا ، اسلام کی خاطر زیادہ تکالیف برداشت کر نا ، گھر بار والا ہونا ، اسلام میں بہت زیادہ مشقت والا ہونا ، حاجت مند ہونا وغیرہ کا بھی لحاظ رکھا جائے گا ۔ اللہ عزوجل کی قسم ! اگر میں زندہ رہا توصنعاء پہاڑ کے چرواہے کا بھی اس مال میں حصہ ہوگا ، حالانکہ وہ اپنی بکریاں بھی چرار ہا ہوگا ۔