عہد فاروقی میں فتوحات مصر
اسلامی فکر اور الیون کی فتح:
امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ جیسے ہی ملک شام کی فتوحات سے فارغ ہوۓ تو آپ نے حضرت سید نا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ مصر کی طرف روانہ ہوجائیں ، چنانچہ وہ اسلامی لشکر کو لے کر مصر کی طرف روانہ ہو گئے ۔ سب سب سے پہلے آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے باب الیون کو فتح کیا پھر اسکندریہ اور الیون کے درمیان میں ایک گاؤں بلہیب پہنچے جسے قریة الریش بھی کہا جا تا ہے ۔
اسکندریہ کی فتح :
چونکہ اسکندریہ کے حاکم کو پہلے ہی اسلامی لشکر کی آمد کا معلوم ہو چکا تھا اس لیے اس نے حضرت سید نا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کوصلح کا پیغام بھیجا ، نیز یہ شرط بھی رکھی کہ ہمارے جو قیدی تمہارے پاس ہیں انہیں آزاد کرنا ہوگا ۔ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ نے جوابا ارشادفرمایا کہ مجھ پر بھی ایک حاکم مقرر ہے اور میں یہ کام اس کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتاتم انتظار کرو تا کہ میں ان سے مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کرسکوں ۔ پھر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک مکتوب روانہ کیا جس کی ساری صورت حال بیان کی ۔سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے جزیہ کی ادائیگی کو ترجیح دی ۔ حاکم اسکندریہ کی شرط کے بارے میں فرمایا کہ جوقیدی عرب تک جاچکے ہیں چونکہ وہ سب ادھر ادھر ہو گئے ہیں لہذا ان کی ذمہ داری نہیں لی جاسکتی البتہ جو قیدی وہاں موجود ہیں ، اولا ان پر اسلام پیش کیا جاۓ گا ، جس نے اسلام قبول کرلیا وہ اسلامی لشکر میں شامل ہو جائے گا اور جس نے قبول نہ کیا اسے بھی شہر والوں کی طرح جزیہ ادا کرنا ہوگا ۔ ‘ ‘ سید نا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ نے سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے حکم سے حاکم اسکندریہ کو آگاہ کر دیا اور اس نے بھی ان تمام باتوں کو قبول کر لیا ۔ چنانچہ قیدیوں پر اسلام پیش کیا گیا جنہوں نے اسلام قبول نہ کیا ان پر جزیہ لازم کر دیا گیا ۔ پھر اسلامی لشکر قلعے میں داخل ہوا اور اسکندر یہ بذری سے فتح ہو گیا ۔