مجرم کے حق میں لاعلمی حجت نہیں :
جب کسی مجرم کا مقدمہ عدالت میں پیش ہو اور اس کے خلاف فیصلہ ہو تو اس کی اپنے جرم سے لاعلمی اس کے حق میں حجت نہیں بن سکتی ۔ آج بھی دنیا کے تقریبا سب ہی ممالک میں یہی اصول رائج ہے لیکن اس عذر کو دور کرنے کی کوئی عملی صورت نہیں ہے ، بعض ممالک میں قانون کی تعلیم تو دی جاتی ہے لیکن وہ اتنے محدود پیمانے پر ہوتی ہے یا اس کے اخراجات اتنے ہوتے ہیں کہ ہر خاص و عام کی وہاں تک رسائی نہیں ہوتی ۔ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اس عذر کو دور کرنے کے لیے اس کا عملی تدارک بھی فرمایا ۔
عہد فاروقی کے ماہر قانون دان :
آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے مختلف علوم کے ماہرفقہاء صحابہ کرام علیہم الرضوان و دیگر اشخاص کو لوگوں کی مختلف معاملات میں قانونی و شرعی رہنمائی کرنے کی ذمہ داری سونپی تا کہ جب کوئی شخص ان سے مسئلہ دریافت کرے تو وہ اسے مکمل مسئلہ بتائیں ۔ اس صورت میں گو یا ہرشخص جب چاہے قانونی اور شرعی مسائل سے واقفیت حاصل کرسکتا تھا لہذا کوئی شخص لاعلمی کا بھی عذر نہیں کر سکتا تھا ۔ اس معاملے میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے دوطریقے سے پیش رفت فرمائی :
(١)آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے شرعی و قانونی رہنمائی کی ذمہ داری صرف مخصوص افراد کو عطا فرمائی ، ہر خاص و عام کو اس کی اجازت نہ دی تا کہ غلط مسائل کی ترویج سے بچا جا سکے ۔ آپ نے جن لوگوں کو یہ اجازت عطا فرمائی ان میں بڑے بڑے نامور محدثین وفقہاء اور مفتیان کرام بھی شامل تھے ۔ سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں علم کی نشر واشاعت کے لیے مختلف بڑے بڑے شہروں میں مقرر فرمایا ۔ ان میں امیر المؤمنین حضرت سید نا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت سید نا علی المرتضی شیر خدا کرم الله تعالى وجه الكريم ، حضرت سید نا معاذ بن جبل رضی الله تعالى عنه ، حضرت سید نا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت سید نا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت سید نا زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت سید نا ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہ کے اسماء سر فہرست ہیں ۔
( ٢)آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان تمام نامور شخصیات کے اسماءمبارکہ عوام الناس کے سامنے ذکر کر دیے جن سے قانونی و شرعی رہنمائی کی اجازت تھی ، ایک بار نہیں بلکہ بار ہا مقامات پر آپ نے اس بات کا ذکر کیا ملک شام کے سفر میں جابیہ کے مقام پر جو آپ نے خطبہ دیا اس کے الفاظ کچھ یوں ہیں : من أراد القرآن فليات ابیا یعنی جوقر آن پاک کی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہو وہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جاۓ ۔ ومن أحب أن يسال عن الفرائض فليات زيداً اور جسے علم الفرائض یعنی میراث سے متعلق کوئی مسئلہ پوچھنا ہوتو وہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جائے ۔ومن أحب أن يسأل عن الفقه فليأت معاذا اور جسے کوئی فقہی مسئلہ پوچھنا ہوتو وہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جاۓ ۔ ومن أحب أن يسأل عن المال فليأتني فإن الله جعلني له خازنا و قاسما اور جسے کوئی مالی مسئلہ معلوم کرنا ہو تو وہ میرے پاس ہی آۓ کیونکہ اللہ عزوجل نے مجھے اس کا ”خازن“ یعنی جمع کرنے والا اور ”قاسم “یعنی تقسیم کرنے والا بنایا ہے ۔
قانون دانوں سے پوچھ گچھ :
واضح رہے کہ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے مذکورہ بالا علماء وفقہا صحابہ کرام علیہ الرضوان کو قانونی وشرعی رہنمائی کے لیے نہ صرف مقر فر ما یا تھا بلکہ وقتا فوقتا آپ رضی اللہ تعالی عنہ ان سے مسائل کے متعلق پوچھ گچھ بھی فرماتے رہتے تھے ۔ چنانچہ حضرت سید نا عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت سید نا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ سے دوران گفتگو ایک مسئله دریافت کیا کہ اگر تم قاضی یا کسی شہر کے والی ہوتے ، پھرتم کسی شخص کو اس حالت میں دیکھتے کہ اس پر حد جاری کی جاۓ تو کیا تم اس پر حد جاری کر دیتے ؟ ‘ ‘ حضرت سید نا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا : ’ ’ میں اس وقت تک حد جاری نہ کرتا جب تک میرے علاوہ بھی کوئی اس کے خلاف گواہی نہ دے دیتا ۔ ‘ ‘ سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ جواب سن کر ارشادفرمایا : أصبت ولو قلت غیر ذلک لم تجد تم نے سچ کہا اگر اس کے علاوہ کوئی اور جواب دیتے توغلطی پر ہوتے ‘ ‘