عہد فاروقی میں علمی سرگرمیاں
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو علم کی اہمیت سے کون واقف نہیں ؟ امت مسلمہ کے غلبہ وقوت کا ایک اہم سبب علم بھی ہے علم ہی وہ روشنی ہے جس کے ذریعے پوری دنیا میں اجالا کیا جاسکتا ہے ، خودقرآن پاک کی کئی آیات مبارکہ میں علم کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے ، یقینا علم والے اور جاہل دونوں برابر نہیں ہو سکتے ۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : ”ھل يستوى الذين يعلمون والذين لا يعلمون “ ( پ :۲۳ ، الزمر : ۹ ) ترجمہ کنزالایمان :”کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان “ قرآن پاک میں اللہ تعالی سے ڈرنے والوں کی صفت علم ہی بیان کی گئی ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ” إنما يخشى الله من عبادة العلموا “ (پ :٢٢، فاطر : ۲۸ ) ترجمہ کنزالایمان : اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان اس بات کو جانتے تھے کہ علم دین سے تائید ونصرت النبی حاصل ہوتی ہے اس لیے وہ رسول الله صلى الله تعالى عليه وآله وسلم کی بارگاہ سے علم دین کے حصول کی ہر وقت کوشش کرتے رہتے تھے ، امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ خود بارگاہ نبوی کے تربیت یافتہ تھے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن پاک کی تفسیر رسول الله صل اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے لکھی ، پوری امت مسلمہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے علوم کی گواہ ہے ، سلف صالحین علماء کرام رحمہم اللہ السّلام نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے علم ، سمجھ اور شرعی احکام میں استنباط ، نیز آپ کی معرفت کی خوب پذیرائی کی ہے ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی عادت مبارک تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے بھی علم کے حصول میں پیش پیش رہتے تھے ، بیسیوں ایسے واقعات ہیں کہ جن میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول الله صلى اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے کوئی سوال کیا ، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اس کا جواب دیا اور یوں امت مسلمہ کو بارگاہ نبوت کے علمی خزانے کا فیض حاصل ہوا ۔ نیز آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے کئی اقوال ہیں جو علم کی اہمیت کو اجا گر کر تے ہیں ۔
علم کی اہمیت پر فرامین فاروق اعظم:
اے لوگو ! تم پر علم حاصل کر نا ضروری ہے کیونکہ علم اللہ تعالی کی ایک چادر ہے جسے وہ پسند فر ما تا ہے ، پس جوعلم کے ابواب میں سے کسی باب کو طلب کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے وہ چادر اوڑھا دیتا ہے ۔ پس اگر وہ کوئی گناہ کر بیٹھتا ہے تو ( اس علم کے سب تو بہ واستغفار ورجوع کے ذریعے) اپنے رب عزوجل کو منا تا ہے تا کہ وہ اس سے اس چادرعلم کو سلب نہ فرمالے ۔ پھر اگر وہ گناہ کرتا ہے تو پہلے کی طرح اپنے رب عزوجل کومنا تا ہے ، پھر اگر وہ گناہ کرتا ہے تو پہلے کی طرح اپنے رب عزوجل کو منا تا ہے ۔ ( یوں وہ اپنے رب عزوجل کومنا تارہتا ہے) اگر چہ اس کے گناہوں کا سلسلہ طویل ہو جاۓ حتی کہ یوں ہی اس کا انتقال ہو جاۓ ۔
رات بھر عبادت کرنے والے اور دن بھر روزہ ر کھنے والے ہزارہا عبادت گزاروں کی موت زیادہ آسان ہے اس عالم کی موت سے جو حلال وحرام کی معرفت رکھنے والا ہو ۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص جب اپنے گھر سے نکلتا ہے تو اس کے سر پر تہامہ پہاڑ کے برابر گناہوں کا بوجھ ہوتا ہے ، پھر وہ کسی عالم کا بیان سن لیتا ہے تو اس پر خوف خدا طاری ہو جا تا ہے جس کے سبب وہ اپنے تمام گناہوں سے تو بہ کر لیتا ہے ۔ اب جب وہ اپنے گھر لوٹتا ہے تو اس پر ایک گناہ بھی نہیں ہوتا ۔ پس اے لوگو ! تم لوگ علماء کی مجالس سے جدائی اختیار نہ کرو کیونکہ روئے زمین پر اللہ تعالی نے علماء کی مجالس سے زیادہ معزز کوئی شے پیدانہ فرمائی –
قرآن کے حافظ اور علم کا سر چشمہ بن جاؤ ۔
علم سیکھواورسکھاؤ علم کے لیے وقار اور سنجیدگی سیکھو ، اپنے اساتذہ اور طلبہ کے لیے عاجزی اختیار کرو –