عہد فاروقی میں خوبصورت آواز میں تلاوت قرآن 

خوبصورت آواز میں تلاوت قرآن : 

   حضرت سید نا ابراہیم رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشادفرمایا : حسنوا أصواتكم بالقرآن یعنی خوبصورت آواز میں قرآن پاک کی تلاوت کرو ۔  

میرے پاس تمہارے جیسی آواز نہیں :   

   حضرت سید نا محمد بن منتشر رحمة اللہ تعالی علیہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی الله تعالی عنہ نے ایک شخص سے فرمایا :  إقرأيا فلان الحجر یعنی اے فلاں سورۂ حجر پڑھ کے سناؤ ۔ اس نے عرض کیا : حضور ! یہ سورت تو آپ کو بھی آتی ہے ۔ فرمایا : اما بمثل صوتیک فلا یعنی میرے پاس تمہارے جیسی خوبصورت آواز نہیں ہے ۔ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! یقینا قرآن پاک کوخوبصورت آواز میں پڑھنا باعث ثواب ہے لیکن بہتر آواز والے قاری صاحبان اپنی نیت پر بھی غور فرمالیں کہ کیا واقعی ہماری نیت خوبصورت آواز میں قرآن پاک کی تلاوت کر کے اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے یا یہ نیت ہے کہ میں خوبصورت آواز میں پڑھوں گا تو لوگ میری واہ واہ کریں گے ، میری آواز کی تعریفیں کر یں گے وغیرہ وغیرہ ۔ یقینا پہلی صورت قابل تعریف ہے کہ رضائے الہی کے لیے خوبصورت آواز میں تلاوت قرآن پاک کی جاۓ جبکہ دوسری صورت قابل مذمت ہے نیز اگر اس میں ریا کاری مقصود ہے تو یہ سخت حرام ، گناہ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔ 

   اگر ریا کاری سے بچتے  ہوئے اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ خوبصورت آواز میں تلاوت کی جائے تو ان شاء اللہ تعالی ثواب کا عظیم خزانہ بھی ہاتھ آئے گا ۔ چندنیتیں پیش خدمت ہیں : ( ۱ ) رضاۓ الہی کے لیے خوبصورت آواز میں تلاوت کروں گا ۔ ( ۲ ) احادیث مبارکہ پرعمل کروں گا ۔ ( ۳ ) خوبصورت آواز سے تلاوت کر کے لوگوں میں ذوق قر آن پیدا کروں گا ۔ ( ۴ ) مسلمانوں کی دلجوئی کروں گا ۔ ( ۵ ) اچھی آواز اللہ عزوجل کی ایک نعمت ہے تو اپنے رب عزوجل کی اس نعمت کا اظہار کرنے کے لیے اچھی آواز میں تلاوت کرتا ہوں ۔ وغیرہ وغیرہ

فاروق اعظم کا انداز تلاوت : 

   حضرت سید نا ابوقتادہ وسید نا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ ایک رات حضور نبی کریم ، رؤوف رحیم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے نماز تہجد میں امیر المؤمنین حضرت سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو پست آواز میں پڑھتے دیکھا ، سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو بلند آواز سے اور سید نا بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا کہ کچھ ایک سورت سے لیا کچھ دوسری سورت سے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے تینوں صاحبوں سے وجہ دریافت فرمائی تو سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی :  قد أسمعت من ناجيت يارسول الله یعني يارسول الله صلى اللہ تعالی علیہ وسلم ! میں جس سے مناجات کرتا ہوں وہ اس پست آواز کو بھی سنتا ہے ۔ سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی :  أوقظ الوسنان واطرد الشيطان يعني يارسول الله صلى اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ! میں اس لیے اتنی آواز سے پڑھتا ہوں کہ سونے والا جاگ جاۓ اور شیطان بھاگ جاۓ سید نا بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ ، نے عرض کی :  كلام طيب يجمع الله تعالى بعضه إلى بعض يعنى يارسول الله صلى الله تعالى عليہ وسلم ! قرآن مجید سب سے پا کیزہ کلام ہے ، کچھ یہاں سے کچھ وہاں سے ملا لیتا ہوں ۔ یہ سن کر حضور نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : کل قد أصاب یعنی تم تینوں نے ٹھیک بات کی درست کام کیا ۔ 

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے