عہد فاروقی میں آمد ورفت کی آزادی
امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام لوگوں کو آمد ورفت کی بھی مکمل آزادی عطافرمائی تھی کوئی بھی شخص بلا جھجک کہیں بھی کسی بھی شہر جا سکتا تھا البتہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اکابر صحابہ کرام علیہم الرضوان کی مختلف شہروں خصوصاً مفتوحہ علاقوں میں بغیر کسی کام کے جانے کی ممانعت فرما دی تھی ، البتہ اگر کسی کو آپ رضی اللہ تعالی عنہ خوداجازت دے دیتے ، یا اسے کسی علاقے کا قاضی ، گورنر یا عامل بنا کر بھیجتے تو وہ چلا جا تا ۔
اکابرین صحابہ کو مدینہ منورہ میں رہنے کا حکم :
حضرت سید ناشعبی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنه کا جب تک انتقال نہ ہوا تب تک قرشی اکابرین صحابہ کرام علیہم الرضوان کو آپ نے مدینہ منورہ میں ہی رہنے کا حکم فرمایا انہیں باہر نہ جانے دیتے تھے ۔ ارشادفرمایا کرتے تھے : ”ان أخوف ما أخاف على هذه الأمة إنتشار كم في البلاد “ یعنی مجھے اس امت کے بارے میں سب سے زیادہ خوف آپ لوگوں کی دوسرے شہروں میں منتقلی سے ہے ۔ اور اگر ان میں سے کوئی شخص جنگ وغیرہ میں جانے کی اجازت طلب کرتا تو آپ اس سے فرماتے : ” قد كان لك في غزوك مع النبي صلى الله عليه وسلم ما يبلغك وخير لك من الغزو اليوم أن لا ترى الدنيا و تراک “ یعنی تم تو وہ خوش نصیب ہو جس نے رسول الله صلى الله تعالی علیہ وسلم کے ساتھ کفار کے خلاف جہاد کر کے وہ سعادت و بھلائی حاصل کی ہے تمہارے لیے اس جنگ سے کہیں بہتر ہے ۔
فاروق اعظم کی سیاسی حکمت و بصیرت :
میٹھے میٹھے اسلامی بائیو!سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے اس عمل سے آپ کی سیاسی حکمت و بصیرت لوگوں کی نفسیات اور طبائع سے واقفیت کا بھی پتا چلتا ہے ۔ کتب سیر و تاریخ کے مطالعے سے اس عمل کی کئی حکمت عملیاں اور لطیف و جوہات سامنے آتی ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے :
آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اکابر صحابہ کرام علیہم الرضوان کو اس لیے باہر کے علاقوں میں جانے سے منع کر دیاتھا کہ آپ انہیں اپنے قریب رکھ کر ان سے مختلف پیچیدہ معاملات میں مشاورت کرسکیں ۔
یہ وہ صحابہ کرام علیہم الرضوان تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی صحبت پائی یقینا یہ نفوس قدسیہ عوام وخواص سب ہی کے لیے نہایت اہمیت رکھتی تھیں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے دیگر علاقوں میں جانے سے منع فرمادیا تا کہ یہ مبارک ہستیاں دیگر علاقوں کے مختلف فتنوں اور انتشار سے محفوظ رہیں ۔
سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام اکابرصحابہ کرام علیہم الرضوان کو اس لیے بھی اپنے پاس مدینہ منورہ میں رکھا تھا کہ جب امیر المؤمنین کی طرف سے کوئی حکم عوام الناس تک پہنچے تو وہ یہ جان لیں کہ یہ حکم تمام اکابر صحابہ کرام علیہم الرضوان کی مشاورت سے طے ہونے کے بعد ہم تک پہنچا ہے ۔ کیونکہ اگر ان اکابر ین صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے کوئی دیگر کسی علاقے میں ہوتا تو وہاں کے مقیم لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ پیدا ہوسکتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے یہ اکابر صحابی رضی اللہ تعالی عنہ تو یہاں موجود ہیں لہذا یہ حکم ان کی مشاورت کے بغیر ہی آیا ہے اور یقینا یہ وسوسہ کئی فتنے پیدا کر سکتا تھا لہذا آپ نے مختلف فتنوں کی کاٹ کے لیے یہ عمل فرمایا ۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے وصال ظاہری کے بعد عہد عثانی میں مختلف فتنوں نے سر اٹھایا اور مسلمانوں کے مابین مختلف فسادات پیدا ہوئے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے جن اکابرین کو مدینہ منورہ میں روکا ہوا تھاسید نا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو اجازت دے دی ، یہ اکابرین جیسے ہی مختلف شہروں میں گئے لوگ ان پر ٹوٹ پڑے اور مختلف فتنوں نے سر اٹھایا ۔
چنانچہ حضرت سیدنا محمد وطلحہ رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں : ”فكان ذلک اول وهن دخل على الإسلام واول فتنة كانت في العامة ليس إلا ذلک“ یعنی اسلام میں داخل ہونے والی سب سے پہلی کمزوری اور پہلی آزمائش یہی تھی کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے اکابرین صحابہ کرام علیہم الرضوان کو عوام الناس میں جانے دیا ۔صلواعلى الحبيب صلى الله تعالى على محمد