عہدفاروقی میں فوج کی تقسیم
جنگی فوج دوطرح کی تھی :
سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد میں فوج کی دوطرح کی تقسیم تھی ، ایک تو وہ جو ہر وقت دشمنوں کے مقابل محاذ پر رہتی تھی ، جبکہ دوسرے فوجی وہ تھے جنہیں مختلف علاقوں میں بھیجنے کے بجائے سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے مدینہ منورہ میں ہی ٹھہرایا ہوا تھا ان کو صرف اسی وقت طلب کیا جا تا تھا جب ان کی ضرورت ہوتی تھی ۔ ان تمام فوجیوں کی بھی دو قسمیں تھیں ، ایک تو عام فوجی اور دوسرے اہم ترین کمانڈرحضرات ، بڑے بڑے اکابر ین صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے اکثر مدینہ منورہ میں ہی رہا کرتے تھے ، ان کو سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ صرف مختلف منصبوں پر فائز فرمایا کرتے تھے ، کیونکہ یہ وہ عظیم تجربہ کارصحابہ کرام علیہم الرضوان تھے جو خاتم المرسلين ، رحمة للعالمين صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں جہاد کی سعادت حاصل کر چکے تھے ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ سے بلا واسطہ فیض حاصل کیا تھا ، یہ وہ حضرات تھے جو نظام کو قائم فرمانے والے تھے جبکہ دیگر فوجی نظام کو قائم کرنے کے لیے راہیں ہموار کر نے والے تھے ۔
تمام فوجیوں کا ابتدائی ریکارڈ :
حضرت سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ جب بحرین سے کثیر مال غنیمت لے کر حاضر ہوۓ تو سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اس وقت مشاورت کے بعد دیوان ( رجسٹر ) مرتب کرنے کا حکم دیا ، جس میں تمام حضرات کار ریکارڈ رکھا گیا ، یہ کام حضرت سید نا عقیل بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت سید نا مخرمہ بن نوفل رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت سید جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ نے سرانجام دیا کیونکہ یہ تینوں حضرات ماہر انساب تھے ۔انہوں نے رجسٹر میں تمام فوجیوں اور دیگر لوگوں کا ریکارڈ بالکل تفصیل کے ساتھ لکھ دیا ۔
واضح رہے کہ فوجیوں کا ابتدائی ریکارڈ تھا جوسب سے پہلے مرتب کیا گیا تھا بعد ازاں مختلف جگہوں کی فوجوں کا ریکارڈ ان کی چھاؤنیوں میں ان کے سپہ سالاروں کے پاس ہی موجود ہوتا تھا ۔
مختلف جگہوں پر فوج کی تقرری :
مفتوحہ علاقوں میں فوج کا ایک ایک مخصوص حصہ تعینات کر دیا جا تا تھا جو وہاں کے انتظامات سنبھالتا ، اس کے علاوہ بھی جہاں کہیں اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی اس کا انتظام کر دیا جا تا جیسا کہ ہرقل بادشاہ نے جب بحری راستے سے مصر پر حملے شروع کیے توسیدنافاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ان تمام ساحلی علاقوں میں فوجی چھاؤنیاں قائم فرمادیں ۔
مفتوحہ علاقوں میں فوجی چھاؤنیاں:
امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام مفتوحہ ممالک کے شہروں میں چھاؤنیاں قائم فرمائیں جنہیں ”اجناد“کہا جا تا تھا ۔ جن علاقوں میں آپ نے فوجی چھاؤنیاں قائم فرمائیں ان میں فوجیوں کے لیے رہائش کا بھی انتظام فرمایا ، جنہیں آج کل کے دور میں ”بیرک “کہا جا تا ہے ۔ فوجیوں کے گھوڑوں کے لیے ایسے اصطبل بناۓ جن میں بیک وقت کم از کم چار ہزار گھوڑے مع ساز و سامان اور پوری جنگی تیاری کے ساتھ ہر وقت تیار رہتے تھے ۔ ایسی تیاری کا مقصد دراصل یہ تھا کہ اگر اچا نک جنگ کی ضرورت پیش آ جائے تو معمولی وقت میں بھی تیار شدہ ہزاروں شہسوار مجاہدین کا میر دستہ میدان جنگ میں جانے کے لیے فورا نکل پڑے ، ہرفوجی چھاؤنی میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے گھوڑوں کے لیے وسیع وعریض چراگا بھی تیار کروائی تھی ، در اصل اس پوری جنگی تیاری میں قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ پرعمل کرنا تھا ، جس میں دشمن کے ساتھ مقابلے کے لیے تیار ہونے کی ترغیب دلائی گئی ہے ۔ چنانچہ اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : ”وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة و من الرباط الخيل ترهبون به عدو الله وعدوكم وآخرين من دونهم لا تعلمونهم الله يعلمهم و ما تنفقوا من شيء في سبيل الله يوف اليكم و أنتم لا تظلمون “( پ ۱۰ ، الانفال : ۱۰ ) ترجمہ کنز الایمان : اور ان کے لئے تیار رکھو جو قوت تمہیں بن پڑے اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ ان سے ان کے دلوں میں دھاک بٹھا ؤ جو اللہ کے دشمن اور تمہارے دشمن ہیں اور ان کے سوا کچھ اوروں کے دلوں میں جنہیں تم نہیں جانتے انہیں جانتا ہے اور اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرو گے تمہیں پورا د یا جائے گا اور کسی طرح گھاٹے میں نہیں رہوگے ۔ “