عهد فاروقی میں مذہبی آزادی 

   امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں سب سے زیادہ غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا لیکن تاریخ میں ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی کہ کسی کوزبردستی اسلام قبول کروایا گیا ہو ۔ اس کی سب سے بڑی اور واضح دلیل یہ ہے کہ آج چودہ سو برس گزر جانے کے باوجود بھی الحمد لله عزوجل پوری دنیا کے ہر ہر کونے میں روزانہ پانچ دفعہ اذان کی آواز گونجتی ہے ، بلکہ ایک سروے کے مطابق پوری دنیا میں صرف اذان ہی ایسی آواز ہے جو ہر وقت کسی نہ کسی کونے میں گونجتی رہتی ہے ۔ ہر روز” انڈونیشیا“کے مشرقی جزائر سے طلوع آفتاب کے ساتھ فجر کی اذان شروع ہوجاتی ہے اور بیک وقت ہزاروں مؤذن الله عزوجل کی توحید اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان کرتے ہیں مشرقی جزائر سے یہ سلسلہ مغربی جزائر تک چلا جاتا ہے ڈیڑھ گھنٹے بعد یہ سلسلہ”سماٹرا “میں شروع ہو جا تا ہے اور ” سماٹرا “کے قصبوں اور دیہاتوں میں اذانیں شروع ہونے سے قبل ہی ”ملا ی “ کی مساجد میں اذانیں ہونے لگتی ہیں ۔ یہ سلسلہ ایک گھنٹے بعد” ڈھا کہ “جا پہنچتا ہے،” بگلہ دیش “میں ابھی اذانیں ختم نہیں ہوتیں کہ” کلکتہ “ سے ”سری لنکا “ تک فجر کی اذانیں شروع ہو جاتی ہیں ، دوسری طرف یہ سلسلہ ” کلکتہ “سے ” بمبئی”ہند تک پہنچتا ہے اور پورے ہند کی فضاء توحید و رسالت کے اعلان سے گونج اٹھتی ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق”سری نگر “ کشمیر اور” ضیاء کوٹ“ ( سیالکوٹ ) میں فجر کی اذان کا وقت ایک ہی ہے جبکہ” ضیاءکوٹ “( سیالکوٹ) سے ” کوئٹہ “باب المدینہ ( کراچی ) اور ‘ ‘ گوادر ‘ ‘ تک چالیس منٹ ہے ، اس عرصے میں فجر کی اذانیں تقریبا پورے پاکستان ‘ ‘ میں گونجتی رہتی ہیں ۔ ‘ ‘ پاکستان میں یہ سلسلہ شروع ہونے سے پہلے”افغانستان ‘ ‘ اور ” مسقط “میں اذانیں شروع ہو جاتی ہیں ۔ ‘ ‘ مسقط “سے ” بغداد “ تک ایک گھنٹے کا فرق ہے ۔ اس عرصے میں اذانیں ” عرب شریف “ ” یمن “ ” عرب امارات “ ”کو یت “ اور ” عراق “ تک گونجتی رہتی ہیں ۔ ”بغداد “ سے ”اسکندریہ“ تک پھر ایک گھنٹے کا فرق ہے۔اس وقت ”شام “ ” مصر “  ”صومالیہ “ اور ”سوڈان “میں اذان کی صدائیں بلند ہوتی رہتی ہیں ۔ ”اسکندری “ اور ” استنبول “ ایک ہی طول وعرض پر واقع ہیں وہاں سے ”مشرقی ترکی“ تک ڈیڑھ گھنٹے کا فرق ہے ، اس دوران ”تر کی “ میں اذانیں شروع ہو جاتی ہیں ، ” اسکندری “ سے ”طرابلس “ تک ایک گھنٹے کا فرق ہے ۔ اس عرصے میں ”شمالی امریکہ “ ” لیبیا“اور ” تیونس “ میں اذانیں شروع ہونے لگتی ہیں ، یوں فجر کی اذان جس کا آغاز انڈونیشیا کے مشرقی جزائر سے شروع ہوا تھا ساڑھے نو گھنٹے کا سفر طے کر کے ” بحراوقیانوس “ تک پہنچنے سے پہلے ” مشرقی انڈونیشیا “میں ظہر کی اذان کا وقت ہو جا تا ہے ۔اس طرح گرہ ارض پر ایک بھی سیکنڈ ایسا نہیں گزرتا ہوگا جب سینکڑوں ، ہزاروں بلکہ لاکھوں مؤذن اللہ عزوجل کی توحید اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان نہیں کرتے اور ان شاء اللہ عزوجل یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔ بحمد اللہ تعالی تقریبا ان تمام ممالک میں تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’ ’ دعوت اسلامی ‘ ‘ اپنا مدنی پیغام پہنچا چکی ہے ۔غور کیجئے ! اگرلوگوں کوز بردستی ظلم وستم کے خوف سے اسلام قبول کر وایا جاتا تو آج لوگوں کی عقیدت و محبت کا یہ عالم نہ ہوتا ۔ پوری دنیا میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس میں کوئی شخص مذہب کو قبول کرنے میں کسی زبردستی کا شکار نہیں ہے ۔ کیونکہ کوئی شخص اس وقت تک مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ دل سے اللہ عزول کی وحدانیت ورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی رسالت و دیگر ضروریات دین کا اقرار نہ کرے ۔ 

فاروق اعظم کی بڑھیا عورت کو اسلام کی دعوت : 

   ایک دفعہ ایک بڑھیا امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس اپنی کسی ضرورت سے آئی تو آپ نے اسے اسلام کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فر مایا : ‘ اسلمی تسلمي بعث الله بالحق محمدا صلى الله عليه وسلّم یعنی اے بڑھیا ! تم مسلمان ہوجاؤ سلامتی والی ہوجاؤ گی ، اللہ عزوجل نے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ۔ اس نے آپ کے سامنے اپنا سر کھولا تو اس کے بال بالکل سفید ہو چکے تھے ۔ گویا اس نے یہ بتادیا کہ میں بالکل بوڑھی ہو چکی ہوں ، پھر کہنے لگی ’ ’ انا اموت الآن یعنی اب تو موت بھی میرے بہت قریب ہے ۔ ‘ ‘ یہ سن کر امیرالمؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : اللهم اشهد یعنی اے اللہ عزوجل تو گواہ ہو جا ۔ ( یعنی میں نے اسے اسلام قبول کر نے پر مجبور نہیں کیا ۔ ) پھر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن پاک کی یہ آیت مبارکہ تلاوت کی : ولا إكراه في الدين ( پ: ٣، البقرة : ۲ ۵ ۲ ) ترجمہ کنزالایمان : ” کچھز بردستی نہیں دین میں ۔  

فاروق اعظم کی غلام کو اسلام کی دعوت : 

   سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک نصرانی غلام تھا جس کا نام’اسق ‘ ‘ تھا ۔ اس کا بیان ہے کہ ایک بارامیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھ سے فرمایا : اگر تم اسلام قبول کر لو تو ہم تم سے مسلمانوں کے معاملات میں مدد لیں گے کیونکہ ہمارے نزدیک ان کے معاملات میں کافروں سے مدد لینا جائز نہیں ہے ۔ میں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا توسید نافاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشادفرمایا : لا إكراه في الدين یعنی دین میں کوئی زبردستی نہیں ۔ پھر جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے مجھے آزادفر ما یا حالانکہ اس وقت بھی میں نصرانی تھا اور ارشادفرمایا : اذهب حيث شئت یعنی تم آزاد ہو جہاں جانا چاہو چلے جاؤ ۔

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے