صدقہ فطر واجب ہے

      نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک شخص کو بھیجا کہ مکہ کے کوچوں میں اعلان کر دے کہ صدقہ فطر واجب ہے ۔ سیدنا حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقائے دو جہاں حضورصلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : بندہ کا روزہ آسمان وزمین کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک صدقہ فطر ادا نہ کرے ۔ ابن عساکر ) 

  صدقہ فطر کے متعلق ضروری مسائل

      صدقہ فطر واجب ہے ، عمر بھر اس کا وقت ہے اگر ادانہ کیا ہو تو اب ادا کر دے ۔ادا نہ کرنے سے صدقہ فطر ساقط نہ ہوگا اور نہ اب ادا کرنا قضا ہے بلکہ اب بھی ادا ہی ہے اگر چہ مسنون قبل نماز عید ادا کر دینا ہے ۔ درمختار ) 

    صدقہ فطر شخص پر واجب ہے مال پر نہیں لہذا مر گیا تو اس کے مال سے ادا نہیں کیا جاۓ گا ۔ (جوهرہ)

  عید کے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقہ فطر واجب ہوتا ہے لہذا جوشخص صبح ہونے سے پہلے مر گیا یاغنی تھا فقیر ہو گیا تو صدقہ فطر اس پر واجب نہیں ۔ عالمگیری )

  صدقہ فطر ہر مسلمان آزاد صاحب نصاب پر جس کی نصاب حاجت اصلیہ سے فارغ ہو واجب ہے ۔ اس میں عاقل ہونے کی شرط نہیں ۔ درمختار 

    مرد ما لک نصاب پر اپنی طرف سے اور اپنے چھوٹے بچے کی طرف سے واجب ہے جب کہ خود بچہ مالک نصاب نہ ہو ورنہ اس کا صدقہ اس کے مال سے ادا کیا جاۓ گا ۔ در مختار 

    صدقہ فطر واجب ہونے کے لئے روزہ رکھنا شرط نہیں۔اگر کسی عذر مثلا بیماری ، بڑھاپے کی وجہ سے نہ رکھا یا معاذ اللہ بلاعذر روزہ نہ رکھا جب بھی صدقہ فطر واجب ہے ۔ در مختار 

   باپ نہ ہوتو دادا باپ کی جگہ ہے یعنی اپنے یتیم پوتے پوتی کی طرف سے اس پر صدقہ دینا واجب ہے ۔ درمختار

   ماں پر اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صدقہ دینا واجب نہیں ۔ درمختار 

    ماں باپ دادا دادی نابالغ بھائی اور دیگر رشتہ داروں کا فطرہ اس کے ذمہ نہیں اور بغیر حکم ادا بھی نہیں کرسکتا ۔ عالمگیری ]

     ایک شخص کا فطرہ ایک مسکین کو دینا بہتر ہے اور چند مسکینوں کو دے دیا جب بھی جائز۔ درمختار 

    فطرہ کا مقدم کرنا مطلقاً جائز ہے جب کہ وہ شخص موجود ہو جس کی طرف سے ادا کرتا ہو اگر چہ رمضان سے پہلے ادا کر دے اور اگر فطرہ ادا کرتے وقت مالک نصاب نہ تھا پھر ہو گیا تو فطرہ صحیح ہے اور بہتر یہ ہے کہ صبح صادق ہونے کے بعد اور عید گاہ جانے سے پہلے ادا کر دے ۔ درمختار )

    مالک نصاب 

    صدقہ فطر کے مسئلے میں مالک نصاب وہ شخص ہے جو ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا کا مالک ہو یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت کا سامان تجارت یا سامان غیر تجارت کا مالک ہو اور مملکہ چیز میں حاجت اصلیہ سے زائد ہوں ۔ انوار الحديث

   صدقہ فطر کی مقدار 

   صدقہ فطر کی مقدار یہ ہے کہ گیہوں یا اس کا آٹا آدھا صاع کھجور یا منقی یا جو یا اس کا آٹا ایک صاع ۔ ( عالمگیری )

     اس دور کے پیمانے سے نصف صاع گیہوں کا وزن دوکلو اور تقریبا ۴۷ گرام ہوگا ۔ گیہوں ، جو کھجور اور منقی کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز سے فطرہ ادا کرنا چاہیں مثلا چاول ، باجرہ ، اور کوئی غلہ تو آدھا صاع گیہوں یا ایک صاع جو کی قیمت کا لحاظ کرنا ہوگا یعنی وہ چیز آدھے صاع گیہوں یا ایک صاع جو کی قیمت کی ہو یہاں تک کہ روٹی دیں تو بھی قیمت کا لحاظ کیا جاۓ گا اگر چہ گیہوں یا جو کی ہو ۔ درمختار ، عالمگیری ) 

      گیہوں اور جو کے دینے سے ان کا آٹا دینا افضل ہے اور اس سے افضل یہ ہے کہ قیمت دے دے خواہ گیہوں کی قیمت دے یا جو کی یا کھجور کی مگر گرانی میں خود ان کا دینا قیمت دینے سے افضل ہے ۔ اگر خراب گیہوں یا جو کی قیمت دی تو اچھے کی قیمت سے جو کمی پڑے پوری کرے ۔ در مختار

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے