زکوۃ نہ دینے والے یہودونصاری کی طرح ہیں
مخبر صادق رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے زکوۃ نہ دینے والے اللہ تبارک وتعالی کے یہاں یہود و نصاری کی طرح ہیں ۔ عشر نہ دینے والے مجوس کی طرح ۔زکوۃ اور عشر نہ دینے والے نبی کریم صلی اللہ تعلی علیہ وسلم اور فرشتوں کی زبان سے ملعون قرار پاتا ہے اور اس کی گواہی قابل قبول نہیں اور سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس شخص کے لئے خوش خبری ہے جس نے زکوۃ اور عشر ادا کیا اور اس کے لئے بھی خوش خبری ہے جس پر قیامت اور زکوۃ کا عذاب نہیں ۔ جس شخص نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کی اللہ تبارک و تعالی نے اس سے عذاب قبر اٹھالیا اس پر جہنم کو حرام کر دیا اس کے لئے بغیر حساب کے جنت واجب کر دی اور اسے قیامت کے دن پیاس نہیں لگے گی ۔(مكاشفة القلوب )
مال سانپ بن جاۓ گا
فرمان الہی ہے جو لوگ اللہ تعالی کے دیئے ہوئے مال میں بخل کرتے ہیں وہ اسے اپنے لئے بہتر نہ سمجھیں بلکہ یہ ان کے لئے مصیبت ہے عنقریب بخل کردہ مال سے قیامت کے دن ان کو طوق پہنایا جاۓ گا ۔ فرمان الہی ہے ان مشرکین کے لئے ہلاکت ہے جو زکوۃ ادا نہیں کرتے ۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالی نے زکوۃ نہ دینے والوں کو مشرک کہا فرمان نبوی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہے جوشخص اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں اس کی گردن میں لٹک رہا ہوگا ۔
خشک سالی گھیر لیتی ہے
پیارے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا اے مہاجرین ! پانچ بلائیں ایسی ہیں جن کے متعلق اللہ تعالی سے میں تمہارے لئے پناہ مانگتا ہوں ۔ جب کسی قوم میں کھلم کھلا بدکاریاں ہوتی ہیں تو اللہ تبارک وتعالی ان پر ایسے مکروہات نازل کرتا ہے جو پہلے کسی پر نازل نہیں ہوۓ ، جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو ان پر تنگ دستی قحط سالی اور ظالم حاکم مسلط کر دیا جاتا ہے ، جب کوئی قوم اپنے مالوں کی زکوۃ نہیں دیتی انہیں خشک سالی گھیر لیتی ہے اگر زمین پر چوپاۓ نہ ہوں تو بھی ان پر بارش نہ برسے ، جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑ دیتی ہے تو اس پر اس کے دشمن مسلط ہو جاتے ہیں جو ان سے ان کا مال و دولت چھین لیتے ہیں ، جس قوم کے فرمان روا اللہ کی کتاب سے فیصلہ نہیں کرتے ان کے دلوں میں ایک دوسرے سے خوف پیدا ہوجاتا ہے ۔
ایک کھجور کا صدقہ پہاڑ کے برابر ہے
تاجدار عرب و عجم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں جو شخص حلال کی کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالی اسے اپنی برکت سے قبول فرمالیتا ہے پھر اس صدقہ کو صدقہ دینے والے کے لئے اس طرح پرورش کرتا ہے جس طرح تم اپنے بچھروں کی پرورش کرتے ہو یہاں تک کہ وہ صدقہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے ۔ اس حدیث پاک کی تصدیق اس آیت سے ہوتی ہے ۔ الم يعلموا أن اللـه هـو يقبل التوبة عن عباده ويا خذ الصدقات۔ کیا انہیں خبر نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقے اپنے دست قدرت میں لیتا ہے ۔
صدقہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے
طبرانی کی روایت میں ہے کہ صدقہ مال کوکم نہیں کرتا اور نہ ہی بندہ صدقہ دینے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے مگر وہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں جاتا ہے یعنی اللہ تعالی اسے سائل کے ہاتھ میں جانے سے پہلے قبول کر لیتا ہے اور کوئی بندہ بے پروائی کے باوجود سوال کا دروازہ نہیں کھولتا مگر اللہ تعالی اس پر فقر کو مسلط کر دیتا ہے ۔ بندہ کہتا ہے میرامال ہے مگر اس کے مال کے تین حصے ہیں جو کھایا فنا ہو گیا جو پہنا وہ پرانا ہو گیا جو راہ خدا میں دیا وہ حاصل کرلیا اور جو اس کے سوا ہے وہ اسے لوگوں کے لئے چھوڑ جانے والا ہے ۔
راہ خدا میں دے کر
صاحب لولاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں کہ تم میں سے کوئی ایک ایسا نہیں ہے مگر اللہ تعالی بغیر کسی ترجمان کے اس سے گفتگو فرماۓ گا ۔ آدمی اپنی داہنی طرف دیکھے گا تو اسے وہی نظر آۓ گا جو اس نے آگے بھیجا ہے اور بائیں طرف وہی دکھائی دے گا جو اس نے آگے بھیجا ہے اور اپنے سامنے دیکھے گا تو مقابل میں آگ نظر آۓ گی پس تم اس آگ سے بچو اگر چہ کھجور کا ایک ٹکڑاہی راہ خدا میں دے کر بچ سکو ۔ حدیث شریف میں ہے کہ اپنے چہروں کو آگ سے بچاؤ اگر کھجور کے ایک ٹکڑے ہی سے کیوں نہ ہو ۔ حضور اکرم سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ صدقہ گناہوں کو اس طرح مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے ۔
شافع محشرصلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا اے کعب بن عجرہ ! جنت میں وہ خون اور گوشت نہیں جائے گا جو حرام ذریعہ سے حاصل کردہ مال سے پھلا پھولا ہو۔اے کعب بن عجرہ ! لوگ جانے والے ہیں ، بعض جانے والے اپنے نفس کو رہائی دینے والے ہیں اور بعض اسے ہلاک کرنے والے ہیں ۔اے کعب بن عجرہ ! نماز نزدیکی ہے ، روزہ ڈھال ہے اور صدقہ گناہوں کو اس طرح دور کر دیتا ہے جیسے چکنے پتھر سے کائی اتر جاتی ہے۔ایک روایت میں ہے کہ جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے ۔غضب کو ٹھنڈا کر دیتا ہے سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا صدقہ اللہ تبارک وتعالی کے غضب کو ٹھنڈا کر دیتا ہے اور موت کی تکلیفوں کو دورفرما دیتا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ کوئی آدمی صدقہ کی چیز نہیں نکالتا مگر اسے ستر شیطانوں کے جڑوں سے جدا کرتا ہے ۔ شفیع روز حشر صلی اللہ تعالی علیہ سلم سےدریافت کیا گیا کہ کون سا صدقہ افضل ہے تو آپ نے فرمایا کہ کم حیثیت شخص کا کوشش سے خرچ کرنا اور اپنے اہل و عیال سے اس کی ابتداء کرنا ۔
ایک درہم لاکھ درہم سے زیادہ ہے
سیاح لا مکاں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ایک درہم لاکھ درہم پر سبقت لے گیا ایک شخص نے عرض کیا وہ کیسے ؟ آپ نے ارشادفرمایا ایک شخص کے پاس بہت مال و دولت تھی اور اس نے اس میں سے ایک لاکھ درہم نکال کر صدقہ کر دیا اور دوسرے شخص کے پاس صرف دو درہم تھے ان میں سے ایک راہ خدا میں دے دیا۔طبرانی کی روایت میں ہے کہ نیک کام کرنا ، بری جگہوں سے بچنا اور خفیہ صدقہ اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کر دیتا ہے اور صلہ رحمی زندگی بڑھاتی ہے اور ہر اچھا کام صدقہ ہے ۔ دنیا میں اچھا کام کرنے والے آخرت میں اچھے کام کرنے والوں کے ساتھ ہوں گے اور جنت میں سب سے پہلے بھلائی کرنے والے داخل ہوں گے ۔طبرانی کی دوسری روایت میں ہے کہ رسول اکرم سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ صدقہ کیا ہے ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا دو گنا اور اللہ کے یہاں اس سے بھی زیادہ ہے ۔