سیمانچل اور سالانہ سیلاب
از: تحمید برکاتی
کسی ملک یا علاقے کی ترقی کے لیے اس کا جغرافیائی محل وقوع بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اس خطہ زمین کا ایسی Location پر واقع ہو ناجو سمندر پہاڑ ندی اور نالے سے قریب ہو اس کی ترقی کا باعث ہے، مگر جہاں یہ سمندر، پہاڑ اور ندی نالے کسی خطے کی جغرافیائی حیثیت کو طاقت بخشتے ہیں وہی ان کا ضرورت سے زیادہ ہونا اس علاقے کی مادی طاقت کو کمزور کرتا ہے ، ایسے ہی سیکڑوں ندیوں اور پہاڑی جھرنوں کے جال میں پھنسا ہندوستان کا ایک مشرقی علاقہ سیمانچل ہے جس کے ایک سمت Sikkim کی پہاڑی سے نکلنے والی ندیوں کا ظلم ہے تو دوسری طرف نیپال سے بہنے والی ندی Koshi کا قہر اور جنوبی سمت مشہور زمانہ گنگا ندی کی تباہی شباب پر ہے،
سیمانچل کا علاقہ تین سمتوں سے مکمل طور پر ایسی ندیوں سے گھرا ہوا ہے جس کی تباہ کاری سے ہر سال یہاں کی تقریبا ۲۰ سے ۳۰ فیصد آبادی متاثر ہوتی ہے،اس کے مشرق میں مہانندہ ندی ہے جس کا سرا Darjeeling کی وادیوں سے ملتاہے یہ ندی Dobanochi Kishanganj کے پاس سیمانچل میں داخل ہوتی ہے اور اس کے تین بڑے اضلاع ” کشن گنج، پور نیا اور کٹیہار کے تقریبا ۱۵۰ چھوٹے بڑے گاؤں کو متاثر کرتی ہوئی Belgachhi کے پاس بنگال کی کھاری میں داخل ہو جاتی ہے، اس سمت یہ تنہاندی نہیں ہے بلکہ ہمالیہ سے نکلنے والی دواور مشہور ندیاں Mehi اور Kankai اس کے ساتھ کار فرما ہیں، Mechi کشن گنج کی تقریبا ۱۵ بستیوں کو متاثر کرتی ہے اور Kankai نیپال سے نکلتی ہے کشن گنج اور پورنیہ کے کم و بیش ۳۸ گاؤں کی شان و شوکت کو داغدار کرتی ہوئ Mahananda سے مل جاتی ہے۔
اس خطے کی مغربی سمت Koshi سے نکلنے والی کئی ندیاں ہیں جو ارریہ ، پور نیہ اور کٹیہار کی بہت بڑی آبادی کو متاثر کرتی ہے ، کئی ندیاں براہ راست نیپال کی وادیوں سے نکل کر ارریہ میں داخل ہوتی ہیں اور بہت سی بستیوں سے ہو کر بعض کوشی اور بعض گنگا سے ملتی ہیں جنوب کی طرف یہی گنگا لوگوں کی زندگیوں کے لیے عذاب ہے اس کی تباہ کاریوں سے کتنی بستیاں اجڑ جاتی ہیں شہر تباہ اور کتنے خاندان بچھڑ جاتے ہیں، اس کے علاوہ کوشی ندی کٹیہار کے کئی گاؤں کو متاثر کرتی ہے یہ سیمانچل میں بہنے والی بڑی اور مشہور ترین ندیوں کا اجمالی بیان اور اس کے ظلم کی معمولی داستان ہے، ان کے علاوہ بھی کو سی، مانندہ اور نیپال کی پہاڑیوں سے نکلنے والی ندیوں کی تعداد کم و بیش ۳۳ ہے ان ندیوں سے بالخصوص ارریہ، پورنیہ اور کٹیہار متاثر ہوتا۔
سیمانچل اور اس کی ندیوں کی تحقیق و تفتیش سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس میں کل 5300 بستیاں ہیں جن میں سے ہر سال قریب ایک ہزار گاؤں متاثر ہوتا ہے جو کل آبادی کا ۲۰ فیصد ہے، ہزاروں سال پرانی تہذیب کا یہ مرکز جہاں کی زمین سونا اگلتی ہے آب و ہوا معتدل ہے سالانہ سیلاب کی ظلم وزیادتی سے اجڑ جاتا ہے اس کی شان و شوکت خاک میں مل جاتی ہے۔ بستی کے گھروں کو کیا دیکھے بنیاد کی حرمت کیا جانے سیلاب کا شکوہ کون کرے سیلاب تو اندھا پانی ہے
مگر شکوہ ان حکمرانوں اور فرضی منصفوں سے ہے جو گلی انگن کا چکر لگا کر اپنے انصاف پسند اور خیر خواہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں سیلاب کے بعد وہ کہیں نظر بھی نہیں آتے نہ حکومت بہار نے اب تک اس سنگین معاملے پر قد غن لگانے کی کوئی تدبیر کی حالانکہ ۲۰۰۸ اور ۲۰۱۷ کا غیر معمولی سیلاب کے بعد عوام نے کھلے عام حکومت کی مخالفت کی اور اس غیر معمولی تباہی پر عوام کی حمایت کی گزارش کی مگر حمایت تو دور حکومت بہار کی طرف سے افسوس کا اظہار تک نہ ہوا کہ معصوم عوام کے درد کا مداوا ہی ہو جاتا، کیا حکومت ہند کے پاس اس غیر ملکی پانی کو روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے؟ کیا اس کو قابو کرنے کے لیے حکومت کوئی تدبیر نہیں کر سکتی ؟ یا پھر انہیں سیمانچل کے غریب طبقہ لوگوں کا خیال ہی نہیں ہے ؟ کیونکہ آج تک نہ کو سی و مہانندہ کے سرے پر ایک ڈیمپ ((Dampہی بن سکا نہ ان کے کناروں پر مستحکم بند باند ھنے کی کوئی تدبیر ہی ہوئی۔