سیرت اور کردار سازی میں صحبت کا اثر
انسان بہت سوچتا ہے کہ مجھے سکون اور امن کی زندگی میسر آۓ ، میں معاشرے اور سوسائٹی میں با عزت زندگی بسر کروں ، مگر اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کے ہوتے ہوۓ اسے یہ دولتیں میسر نہیں آتیں سیرت اور کردار کی بلندی میں جہاں دوسری چیزیں اہم رول ادا کرتی ہیں ، وہیں صحبت اور ماحول کا بھی بہت بڑا حصہ ہوتا ہے ، انسان کر دار ونسل ، رفتار و گفتار کی درستگی اور پاکیزگی سے ہی عزت و عظمت حاصل کرتا ہے ، معزز افراد میں اسے اہم مقام دیا جاتا ہے ۔
جو قرآن وحدیث کی روشنی میں صحبت کا اثر مسلم ہے انسان اپنے ہم نشیں کی عادات واطوار اور عقائد سے ضرور متاثر ہوتا ہے متعدی مرض کے مریض کے پاس بیٹھنے والا بھی اس مرض کا شکار ہو جاتا ہے ۔ قرآن کریم میں واضح طور پر پاکیزہ لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور احادیث نبویہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام میں بھی متعدد مقامات پر صحبت صالح اختیار کرنے اور صحبت طالح سے پر ہیز کرنے کا حکم دیا گیا ہے چنانچہ معلم کائنات کا ارشاد گرامی ہے :
نیک ہم نشیں اور بد جلیس کی مثال یوں ہے جیسے ایک کے پاس مشک ہے اور دوسرا دھونکنی دھوک رہا ہے مشک والا یا تو مشک ویسے ہی مجھے دے گا یا تو اس سے مول لے گا اور کچھ نہ سہی خوشبو تو آۓ گی اور وہ دوسرا یا تیرے کپڑے جلادے گا یا تو اس سے بدبو پاۓ گا ۔(صحیح بخاری ، 1 / 82 )
عارف باللہ حضرت داتا گنج بخش ( متوفی 465 ھ ) اپنی کتاب ” کشف المحجوب ‘ ‘ میں آداب صحبت کے متعلق ایک حدیث پاک نقل فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں : حضور اکرم کا ارشاد ہے : ” اكثروا من الاخوان فان ربکم حی کریم لیستحى اذ يعذب عبده بين اخوته یوم القيمة “ اپنے بھائی اور زیادہ بناؤ اور ان کے حقوق میں حسن سلوک کر کے بھائی بناؤ کیوں کہ تمھارارب حی وکریم ہے وہ حیافرماتا ہے کہ روز قیامت باہمی آداب و معمالات کی وجہ سے اپنے بندے پر اس کے بھائی کے درمیان عذاب فرمائے ۔
لہذا یہی مناسب ہے کہ اپنے بھائی کے ساتھ تعلق لوجہ اللہ رکھا جائے نہ کہ نفسانی خواہش یا کسی فرض و مفاد کی خاطر ، تا کہ دو بندہ حفظ ادب کی وجہ سے ممنون و متشکر ہو ۔ ( کشف المحجوب اردو ص : 488 )
حضرت مالک بن دینار اپنے دامادحضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا ”یا مغيره كل اخ وصاحب لم تفد منہ فی دینک خیرا فانبذ عن صحبتہ حتی تسلم “اے مغیرہ !جس بھائی یا ساتھی کی رفاقت تمہیں دینی فائدہ نہ پہنچائےتم اس جہان میں اس کی صحبت سے بچو تا کہ تم محفوظ رہو ۔
اس نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری صحبت یا تو اپنے سے بڑے اور اچھے کے ساتھ ہوگی یا اپنے سے کمتر کے ساتھ ۔ اگر اپنے سے بڑے اور اچھے کی رفاقت اختیار کرو گے تو اس سے تمھیں دینی دنیوی فائدہ پہنچے گا اور اگر اپنے سے کمتر کے ساتھ بیٹھو گے تو تم سے اس کو دین کا فائدہ پہنچے گا کیوں کہ اگر وہ تم سے کچھ حاصل کرے گا تو وہ دینی فائدہ پہنچانا ہو گا اور جو تم اپنے برے سے حاصل کرو گے وہ بھی وہی فائدہ حاصل کرنا ہو گا ۔ ( ایضا ص : 488 )
رسول کونین کا ارشاد گرامی ہے : ” المرء على دين خليلہ فلینظر احدكم من یخالل آدمی اپنے دوست کے دین اوراس کے طور و طریق پر ہو تا ہے لہذا ضروری ہے کہ وہ دیکھے کہ کس سے دوستی رکھتا ہے ؟
اگر اس کی صحبت نیکوں کے ساتھ ہے اگر چہ وہ خود نیک نہ ہو ، تو وہ صحبت نیک ہے اس لیے کہ نیک کی صحبت اسے نیک بنادے گی اور اگر اس کی صحبت بروں کے ساتھ ہے اگرچہ وہ نیک ہے تو یہ برا ہے کیوں کہ وہ اس کی برائیوں پر راضی ہے اور جو برائیوں پر راضی ہو اگر پہ نیک ہو بہر حال برا ہے ۔
ایک شخص دوران طواف خانہ کعبہ میں دعا مانگ رہا تھا ” اللهم اصلح اخواني فقيل له لم تدع لك في هذا المقام “ اے اللہ ! میرے بھائیوں کی اصلاح فرما ، لوگوں نے
لہذا یہی مناسب ہے کہ اپنے بھائی کے ساتھ تعلق لوجہ اللہ رکھا جائے نہ کہ نفسانی خواہش یا کسی فرض و مفاد کی خاطر ، تا کہ دو بندہ حفظ ادب کی وجہ سے ممنون و متشکر ہو ۔ ( کشف المحجوب اردو ص : 488 ) حضرت مالک بن دینار اپنے دامادحضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا ” با مغيره كل اخ وصاحب لم تفد منہ فی دینک خیرا فانبذ عن صحبتہ حتی تسلم اے مغیرہ !جس بھائی یا ساتھی کی رفاقت تمہیں دینی فائدہ نہ پہنچائےتم اس جہان میں اس کی صحبت سے بچو تا کہ تم محفوظ رہو ۔
اس نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری صحبت یا تو اپنے سے بڑے اور اچھے کے ساتھ ہوگی یا اپنے سے کمتر کے ساتھ ۔ اگر اپنے سے بڑے اور اچھے کی رفاقت اختیار کرو گے تو اس سے تمھیں دینی دنیووی فائدہ پہنچے گا اور اگر اپنے سے کمتر کے ساتھ بیٹھو گے تو تم سے اس کو دین کا فائدہ پہنچے گا کیوں کہ اگر وہ تم سے کچھ حاصل کرے گا تو وہ دینی فائدہ پہنچانا ہو گا اور جو تم اپنے بڑے سے حاصل کرو گے وہ بھی وہی فائدہ حاصل کرنا ہو گا “ ۔ ( ایضا ص : 488 )
رسول کونین کا ارشاد گرامی ہے : ” المرء على دين خليلہ فلینظر احدكم من یخالل آدمی اپنے دوست کے دین اوراس کے طور و طریق پر ہو تا ہے لہذا ضروری ہے کہ وہ دیکھے کہ کس سے دوستی رکھتا ہے ؟
اگر اس کی صحبت نیکوں کے ساتھ ہے اگر چہ وہ خود نیک نہ ہو ، تو وہ صحبت نیک ہے اس لیے کہ نیک کی صحبت اسے نیک بنادے گی اور اگر اس کی صحبت بروں کے ساتھ ہے اگرچہ وہ نیک ہے تو یہ برا ہے کیوں کہ وہ اس کی برائیوں پر راضی ہے اور جو برائیوں پر راضی ہو اگر پہ نیک ہو یہ حال برا ہے ۔
ایک شخص دوران طواف خانہ کعبہ میں دعا مانگ رہا تھا ” اللهم اصلح اخواني فقيل له لم تدع لك في هذا المقام “ اے اللہ ! میرے بھائیوں کی اصلاح فرما ، لوگوں نے پوچھا؟ اس مقام میں تم اپنے لیے دعا کیوں نہیں مانگتے بھائیوں کے لیےدعا کرتے ہو ؟ اس نے جواب دیا : ” ان لی اخوانا ارجع اليهم فان صلحوا صلحت معهم وإن فسدوا فسدت معهم ” میں چوں کہ انھی بھائیوں کی طرف واپس جاؤں گا اگر وہ درست ہوئے ، تو میں بھی ان کے ساتھ درست رہوں گا اور اگر وہ خراب ہوۓ تو میں بھی ان کے ساتھ خراب ہو جاوں گا کیوں کہ قاعدہ ہے کہ اپنی درستگی مصلحین کی درستگی پر موقوف ہے ، لہذا میں اپنے بھائیوں کے لیے دعا کرتا ہوں تا کہ میرا مقصود ان سے حاصل ہو جائے ۔ ( ایضا ص : 489 )
اس سلسلے میں مندرجہ ذیل احادیث بھی ملاحظہ فرمائیں اور اچھی و بری صحبت اور ماحول کا فرق دیکھیں :
حضرت ابوسعید خدری ( متوفی : 74 ھ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رفاقت نہ کر مگر مسلمان سے اور تیرا کھانا نہ کھائے مگر پرہیز گار ۔ ( سنن ابوداؤد، 664/2جامع الاحادیث ،87/2 )
اچھی صحبت اور عمدہ ماحول سے دنیا وآخرت دونوں سنور تے ہیں ، اور برے ماحول اور بری صحبت سے دنیوی اخروی دونوں طرح کی زندگی تباہ و برباد ہو جاتی ہے ، چناں چہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص مدینہ میں انتقال کر گیا ، تو اسے دفن کر دیا گیا پھرکسی شخص نے اسے خواب میں دیکھا گویا وہ اہل نار ( دوزخ والوں )سے ہے تو اسے اس پر غم ہوا پھر سات یا آٹھ روز کے بعد دو بارہ اسے دیکھا ۔ گویا وہ اہل جنت سے ہے ( خواب دیکھنے والے نے ) اس سے ( یہ معاملہ)پو چھا تو ( مرنے والے نے) کہا: کہ ہمارے پاس مرد صالح دفن کیا گیا پس اس نے اپنے پڑوس میں سے چالیس آدمیوں کی سفارش کی تو ان چالیس میں سے ایک میں بھی تھا ۔ ( شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور )
حضور صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی قدس سرہ العزیز نے بھی اس سلسلے میں اپنی کتاب ” بہار شریعت میں چند احادیث کر یمہ نقل فرمائی ہیں قارئین کے استفادہ کے لیے ذیل میں درج کی جاتی ہیں :
( 1 ) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : اچھا ساتھی وہ ہے کہ جب تو خدا کو یاد کرے وہ تیری مدد کرے اور جب تو بھولے تو وہ یاد دلائے ۔
( 2 ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ایسی چیز میں نہ پڑو جو تمھارے لیے مفید نہ ہو اور دشمن سے الگ رہو ، اور دوست سے بچتے ر ہو مگر جب کہ وہ امین ہو کہ امین کے برابر کوئی نہیں اور امین وہی ہے جو اللہ سے ڈرے اور فاجر کے ساتھ نہ ر ہو کہ وہ تمہیں فجور سکھائے گا ۔ اور اس کے سامنے بھید کی بات نہ کہو اور اپنے کام میں ان سے مشورہ لوجو اللہ سے ڈرتے ہیں ۔ ( بہار شریت 188/16)
حضرت شیخ سعدی شیرازی نے اپنی کتاب ” گلستاں ” میں ایک بڑی دلنشیں اور پیاری حکایت بطور تمثیل بیان فرمائی ہے جس سے صحبت صالح کے نتائج کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتاہے-
فرماتے ہیں:
گلےخوشبوۓ در حمام روز. رسید از دست محبوبے بد ستم.
بدو گفتم کہ مشکی یا اعنبری. کہ از بوئے دلآویز تو مستم
بگفتامن گلے ناچیز بودم. ولیکن مد تے گل نشستم
جمال ہم نشیں در من اثر کرد. وگرنہ من ہماں حاکم کہ ہستم
ترجمہ : یعنی ایک روز خوشبو والی مٹی حمام میں مجھے ایک دوست کے ہاتھوں سے ملی میں نے اس مٹی سے کہا کہ تو مشک ہے یا عنبر؟ کہ تیری دلکش خوشبو نے مجھے مست و بے خود کر دیا ہے ( یہ سن کرمٹی نے کہا) میں تو حقیر مٹی تھی لیکن ایک مدت تک میں پھولوں کی صحبت رہی ، پس ہم نشیں کے جمال نے مجھ میں اثر کیا کہ میں خوشبودار ہو گئی ورنہ میں تو وہی خاک اور مٹی ہوں جو پہلے تھی ۔
نفس کی عادت ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں سے راحت پاتا ہے اور جس قسم کے لوگوں کی صحبت اختیار کی جاۓ گی وہ انہیں کی خصلت عادت اختیار کر لیتا ہے اس لیے کہ تمام معاملات ، ارادہ حق اور ارادہ نے باطل سے مرکب ہیں وہ جس ارادے کے معاملات کے ساتھ صحبت رکھے گا اس پر اسی کا غلبہ ہو گا کیونکہ اپنی ارادت ، دوسرے کے ارادوں پر مبنی ہے ، اور طبع وعادت پر ان کی صحبت کا بڑا اثر اور غلبہ ہے ۔ یہاں تک کہ باز آدمی کی صحبت میں سدھ جاتا ہے ۔ طوطی آدمی کے سکھانے سے بولنے لگتی ہے ۔ گھوڑا اپنی بہیمانہ خصلت ترک کر کے مطیع بن جاتا ہے ۔ ( کشف المحجوب مترجم ص: 490)
کسی نے کیا خوب کہا ہے ۔
نفس از ہم نفس بگیر دخوے. پر حذر باش از لقائے خبیث
بار چوں فضائے بد گزرد. سوۓ بد گیر داز ہوائے خبیث ترجمہ : ایک نفس دوسرے نفس سے خصلت لیتا ہے اس لیے خبیث انسان کے میل سےبچیے ۔
ہوا جب بد بودار جگہ سے گذارتی ہے تو اس خبیث طرف سے بد بو لے کر جاتی ہے ۔ ( تفسیر روح البیان 1. 516 )
علما اور صلحاکی صحبت اور ماحول سے انسان بہت کچھ حاصل کر لیتا ہے کردار و سیرت سازی میں ان کی صحبت کا بھی بڑا گہرا اثر ہوتا ہے ۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ان حضرات کی بار گاہ میں رہنے والے ادنی سے اعلی ہوکر ہیرے اور موتی بن کر دنیا میں چمکنے لگتے ہیں اور خلق خدا ان کی گرویدہ ہوتی جاتی ہیں۔ ان کی سیرت و کردار ، انسانی مروت و ہمدردی اخلاص وللہیت ، توکل واستغنا اور جذبہہ طلب رضاے الہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اثر بھی مصاحبین کی زندگیوں میں پڑتارہتا ہے ۔
ہر دور کے مشائخ عظام نے اپنے پیش روؤں کی صحبت و معیت سے اپنی حیات میں چار چاند لگاۓ ، اور اکتساب فیض کر کے قطروں سے سمندر بن گئے حضور سید ناشیخ عبدالقادر جیلانی غوث اعظم پیران پیر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں :
تم اہل تقوی علما کی صحبت میں رہا کرو کیوں کہ اس میں برکت ہے اور جو عالم کہ علم پر عمل نہیں کرتے ان کی صحبت اختیار نہ کرو کہ ان کی صحبت کرنے میں بد بختی ہے ۔ ( ارشادات غوث اعظم، ص: 231 )
حضرت مجد الف ثانی ﷺ فرماتے ہیں:
ان ( علما و صلحا) کی برکتیں کیا بیان کی جائیں ، یہ کتنی بڑی سعادت ہے کہ حق تعالی عزوجل کے دوست کسی کو قبول کر لیں چہ جائیکہ اس کو محبت و قرب سے ممتاز فرمائیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ہم نشین کبھی بد نصیب نہیں ہو تا غرضے کہ ان کی صحبت کو غنیمت جانیں اور آداب صحبت کو مد نظر رکھیں تاکہ تاثیر پیدا ہوں ۔ ( مکتوبات ص : 1. 252 )
عقائد کے بگاڑ میں صحبت کااثر:
عقیدہ وایمان سب سے بڑی دولت ہے ، الحمد اللہ ہم اس دولت ایمانی اور متاع عظیم سے نوازے گئے ہیں ۔ دور حاضر میں ایمان و عقیدے کی حفاظت بڑا مشکل کام ہے ۔
قرآن کریم میں صاف لفظوں میں فرمایا گیا ہے : وقد نزل عليكم في الكتب أن إذا سمعتم ایت الله يكفر بها ويستهزأ بها فلا تقعدوا معهم حتى يخوضوا في حديث غیر ہ ‘ ‘ ( النساء : 40)
اور بےشک اللہ تم پر کتاب میں اتار چکا کہ جب تم اللہ کی آیتوں کو سنو کہ ان کا انکار کیا جاتا اور ان کی ہنسی بنائی جاتی ہے تو ان لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھوجب تک وہ اور بات میں مشغول نہ ہوں
یعنی ایسی مجالس میں جن میں کتاب الہی کا انکار کیا جائےاور ان کی آیتوں کا مزاق اڑایا جائے شرکت کرنے کی ممانعت کر دی گئی تھی- اسی حکم کی یاد تازہ کرائی جارہی ہے کہ جو شخص ایسی مجلسوں میں شرکت کرتا ہے وہ بھی گناہ میں برابر کا شریک ہوتاہے تمام گمراہ فرقوں کی مجلسوں اور جلسوں میں جا کر بیٹھنے کا یہی حکم ہےکیوں کہ صحبت کا اثر ہوئےبغیر نہیں رہتا-(تفسیر ضیاء القرآن.1. 405)
صحیح حدیث میں فرمایا گیا:
جب دجال نکلے گا کچھ اسے تماشے کے طور پر دیکھنے جائیں گے کہ ہم تو اپنے دین مستقیم پر ہیں ہمیں اس سے کیا نقصان ہو گا وہاں جاکر ویسے ہی ہو جائیں گے ۔
حدیث میں ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا : میں حلف سے کہتا ہوں کہ جو جس قوم سے دوستی رکھے گا اس کا حشراسی کے ساتھ ہو گا ۔ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہمارا ایمان اور پھر حضور کا حلف سے فرمانا ۔
دوسری حدیث میں ہے:
جو کافروں سے محبت رکھے گا وہ انہیں میں سے ہے “ ۔ امام جلال الدین سیوتی رحمۃ علیہ شرح الصدور میں نقل فرماتے ہیں:
ایک شخص روافض کے پاس بیٹھا کرتا تھا جب اس کی نزع کا وقت آیا ، لوگوں نے حسب معمول اسے کلمہ طیبہ کی تلقین کی کہا :نہیں کہا جاتا ۔ پوچھا کیوں ؟ کہا : یہ دو شخص کھڑے کہ رہے ہیں توان کے پاس بیٹھا کر تا تھا جو ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہ کو برا کہتے تھے اب یہ چاہتا ہے کہ کلمہ پڑھ کراٹھے ، ہرگز نہ پڑھنے دیں گے ۔ یہ نتیجہ ! بد مذہبوں کے پاس بیٹھنے کا ۔
جب صدیق و فاروق رضی اللہ عنھما کے بدگویوں سے میل جول کی سی شامت ، تو قادیانیوں اور وہابیوں اور دیوبندیوں کے پاس نشست و برخاست کی آفت کس قدر شدید ہوگی ۔ ان کی بد گوئی صحابہ تک ہے ، ان کی انبیا اور سید الانبیا او اللہ عزوجل تک ۔
صحبت و معیت بد مذہب کے نتیجہ میں آج کتنے خوش عقیدہ مسلمان بد عقیدہ ہو گئے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو نیکوں کی محبتیں عطا فرماۓ ۔اللهم ثبت اقدامنا على الصراط المستقيم