سیدناعباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سےدعا
یا اللہ ! ہم پر بارش نازل فرما :
حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ منورہ میں جب قحط سالی ہوئی تو امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول الله صلى الله تعالى عليه و سلم کے چچا حضرت سید نا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنہ کے وسیلے سے یوں دعا مانگی : اللهم إنا كنا نتوسل اليك بنبينا صلى الله عليه وسلم فتسقينا وانانتوسّل إليك بعم نبينا فاسقنا یعنی اے اللہ عزوجل ! پہلے ہم تیرے پیارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے وسیلے سے بارش کی دعا کیا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش نازل فرماتا تھا اور اب ہم تیرے نبی کے چچا کے وسیلے سے دعا مانگتے ہیں ہم پر بارش نازل فرما ۔ سید نا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے یوں دعا کرنے کے بعد اللہ عزوجل نے ہم پر بارش نازل فرمادی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کی آمد :
فاروق اعظم اورسنید نا عباس کی رقت انگیز دعا :
امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ جب تمام لوگوں کو جمع کر کے دعا کے لیے باہر تشریف لاۓ ، اس وقت تمام لوگوں پر رقت طاری تھی ، کیونکہ تمام مسلمان سخت آزمائش میں مبتلا تھے ، سب کی نظر میں امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات مبارکہ پر لگی ہوئی تھیں ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی دعا کے آخر میں کہا : اے اللہ عزوجل ! میں اپنی رعایا کے معاملے میں مجبور ہو گیا ہوں ، اے پیارے رب جو کچھ تیرے پاس ہے وہ سب انسانوں کے لیے کافی ہے ۔ پھر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم کے چچا حضرت سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ تھاما اور یوں عرض کیا : اے اللہ عزوجل ! ہم تیرے نبی کے چچا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بقیہ اجداد واکابرین کی دعاؤں کے ذریعے تیرا قرب چاہتے ہیں ، تیری بات سچی ہے اور تو خود ارشاد فرماتا ہے : وأما الجدار فكان لغلتين يتيمين في المدينة وكان تخته کنز لهما وكان أبوهما صالحا – ( پ:16 ، الکلیف : 82 ) ترجمہ کنزالایمان : رہی وہ دیوار وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک آدمی تھا ۔
اے اللہ عزوجل ! تو نے ان بچوں کے باپ کے نیک ہونے کی وجہ سے اس دیوار کی حفاظت فرمائی ، لہذا تو اپنے نبی کےچچا کے وسیلے سے ہماری حفاظت فرما ، ہم ان کو تیری بارگاہ میں اپنی شفاعت کے لیے پیش کر رہے ہیں ، تو ان کے صدقے ہماری مغفرت فرما ۔ پھر آپ نے لوگوں کی طرف منہ کیا اور یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی : استغفروا ربكم إنه كان غفارا يرسل السماء عليكم مدرارا ( 29 ، نوح : 10، 11) ترجمہ کنزالایمان : اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے تم پر شراٹے کا مینہ بھیجے گا ۔
پھر یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی : استغفر ربكم ثم توبوا إليه يرسل السماء عليكم مدرارا ويزدكم قوة إلى قوتكم ولا تتولوا مجرمين ( پ”12 ، هود :52) ترجمہ کنز الایمان : اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ تم پرزور کا پانی بھیجے گا اور تم میں جتنی قوت ہے اس سے اور زیادہ دے گا اور جرم کرتے ہوئے روگردانی نہ کرو ۔ سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ساتھ خود حضرت سید نا عباس رضی اللہ تعالی عنہ پر بھی رقت طاری تھی ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری تھے ، آپ کی داڑھی مبارکہ آنسو سے تر ہو چکی تھی ، سید نا عباس نے بارگاہ خداوندی میں التجا کرتے ہوۓ عرض کیا : اے اللہ عزوجل ! توہی ہمارا نگہبان ہے گم ہونے والے کو تو رائیگاں نہ فرما ، بے سہاروں کو ہلاکت کی وادیوں میں اکیلا نہ چھوڑ ، ہمارے چھوٹے کمزور اور بڑے دبلے ہوتے ہے ہیں ، اے باری تعالی ! میری عرض فقط تیری بارگاہ میں ہے ، تو خفیہ اور پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے ، اے اللہ تو ان لوگوں پر اپنی رحمت والی بارش عطا فرما ، ان لوگوں نے تیرے نبی کی نسبت کی وجہ سے مجھے اس جگہ لا کھڑا کیا ہے ۔ ان رقت انگیز دعاؤں کو اللہ عزوجل نے شرف قبولیت بخشا اور اچانک ایک خوشنما بادل ظاہر ہوا ، لوگ کہنے لگے : وہ دیکھو وہ دیکھو ۔ وہ بادل چلتا ہوا آیا اور پھر ٹھہر گیا اور ہوائیں چلنی لگیں ، پھر موسلا دھار بارش شروع ہوگئی ، بارش کا اتنا پانی تھا کہ لوگ اپنی ازار کے پانچوں کو اٹھاۓ واپس آۓ ، پانی ان کے ٹخنوں تک آ گیا ، لوگوں نے حضرت سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے دامن کو تھام لیا اور آپ کو مبارک باد دیتے ہوئے کہنے لگے : هنیئالک ساقی الحرمین یعنی مبارک ہو کہ آپ حرمین یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو سیراب فرمانے والے ہیں ۔
سیدناحسان بن ثابت کے اشعار :
اس عظیم الشان واقعے کے بعد ثناخوان رسول صحابی حضرت سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلى الله تعالی علیہ و سلم اور حضرت سید نا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں یہ تین اشعار کہے : سال الإمام وقد تتابع جدبنا. ,فسقى الغمام بغرة العباس ترجمہ : امام یعنی امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے بارگاہ رب العزت میں سوال کیا اس حال میں کہ ہم پرمسلسل قحط طاری تھا ، تو بادل نے سید نا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی چمک سے بارش برسائی. عم النبي وصلو والده الذي ورث النّبي بذاك دون النّاس ترجمہ : آپ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اکرم ، شاہ بنی آدم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے چچا ، آپ کے والد کے حقیقی بھائی ، دوسروں کے علاوہ وہی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے وارث ہوۓ ۔ أحيا الإله به البلاد فاصبحث. مخضرة الأجناب بعد الياس ترجمہ : اللہ عزوفل نے انہی یعنی سید نا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے وسیلے سے شہروں کو آبادفرمادیا ، مایوسی کے بعد وہ چاروں جانب سے سرسبز ہو گئے ۔