سلطان الہند حضور خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی سماجی خدمات
بر صغیر میں اسلام کی نشر و اشاعت میں صوفیاے کرام کا بے مثال کردار ہے ۔ سلاسل طریقت کے جن مشائخ عظام نے کفرو شرک کی ان تاریک وادیوں میں بھٹکتے ہوۓ لوگوں کے دلوں میں توحید و رسالت کی شمعیں فروزاں کیں ، اصلاح قلوب اور تزکیہ نفوس فرماکر ان کی پیشانی کو بار گاہ صمدیت میں جھکایا اورخلق خدا کی حاجت روائی اور راحت رسانی کے لیے پوری زندگی وقف فرمائیں ان میں ایک نمایاں اور شہرہ آفاق نام سلطان الہند غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کا ہے ۔
زیارت حرمین شریفین کے دوران آپ کو بار گاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ہند کی ولایت عطا ہوئی ( سیر الاقطاب )
کچھ مورخین شہاب الدین غوری کے ایک سپاہی کے طور پر آپ کو پیش کرتے جو حقائق کے خلاف ہے ۔ ان کے پاس نہ کوئی فوج تھی اور نہ وہ کسی خطے کو بزور شمشیر فتح کرنے آۓ تھے بلکہ جس وقت سلطان شہاب الدین غوری ترائن کے میدان میں پرتھوی راج چوہان کی فوج سے شکست کھا کر جب لاہور کی جانب جارہا تھا اس وقت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ اپنے مریدین صادقین کے ایک مختصر سے قافلے کے ساتھ دہلی کی طرف تشریف لا رہے تھے ۔ چند دن ماہ دہلی میں دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف رہے جس سے روز بروز آپ کے چاہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ، آپ کی تعلیمات سے متاثر ہو کر لوگ جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے مگر چونکہ اس وقت دہلی ریاست بھی اجمیر کے ماتحت تھی اور دعوت دین کے لئے اشارہ غیبی اجمیر تھا اس لیے اپنے مرید و خلیفہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو دہلی میں چھوڑ کر آپ نے علاقہ اجمیر کور شد و ہدایت کا مرکز بنایا ۔ یہ علاقہ جغرافیائی لحاظ سے پتھر پیلے پہاڑوں پر مشتمل ہے ، اور اہالیان اجمیر کے قلوب بھی مثل پتھر سخت تھے ، مسلمانوں سے ہونے والی پے در پے جنگوں کے سبب سخت عداوت رکھتے تھے ۔ ایسے کشیدہ ماحول میں دین پر قائم رہنا ہی سب سے بڑا جہاد ہے ۔ لیکن ایسے شدید مخالفانہ ماحول میں شمع دیں روشن کرنا اور ظالم کے سامنے کوہ استقامت بن کھڑے رہنا خاصان خدا اور متوکلین علی اللہ کا خاصہ ہے ۔ راجہ آپ کے صبر وتحمل اور تصلب و استقامت کے مناظر دیکھ کر دنگ رہ گیا ، اور باطل شکن کرامات اور روحانی تصرفات کے سامنے عاجز ہو کر رہ گیا ، ایک دو سال بعد شہاب الدین غوری کے ہاتھوں شکست فاش کھا کر مقتول ہوا ، آپ کی کاوشوں سے اجمیر مقدس اور ہندوستان کی فضا بڑی حد تک کلمہ طیبہ کے نغموں سے گونجنے لگی ۔ آپ نے امن و محبت کے پیغام کو عام کرنے اور انسان کو انسان کا بھائی بن رہنے کا درس دیا ۔ آپ کی تعلیمات کا سب سے زیادہ زور خلق خدا کی خدمت پر تھا اور اس کے لیے اپنی خانقاہ میں لنگر وغیرہ مسلسل جاری رکھا خصوصا اس دور میں جب کہ لوگ نان شبینہ کے محتاج تھے ، غذائی قلت عام تھی ،
آپ کا دستر خوان بڑ اوسیع تھا آپ کے لنگر سے بلا تفریق مذہب و ملت ہر ایک ضرورت مند مستفید ہوتا تھا ۔ جو مارے شرم کے نہیں آتے آپ اپنے خادموں سے ان کے گھر کھانا بھجواتے ، بھوکوں کو کھانا کھلانا ، مفلوک الحال لوگوں کی مدد کرنا ، حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنا ، مخلوق کی ضرورتیں پوری کرنا ، مظلوموں کا ساتھ دینا ، آپ کا محبوب مشغلہ تھا ۔ آپ کے اس طرز عمل اور اخلاق کریمانہ سے لوگ گرویدہ ہو جاتے ۔ جو آپ سے ایک بار ملتا وہ آپ کا ہو جاتا ، چہار جانب سے غم کے مارے آتے آپ ان کے درد کی دوا کرتے ، آپ کے وصف جود و سخا اور غریب پروری کو دیکھ کر خلق خدا کی زبان پر ” غریب نواز “ کا نام جاری ہو گیا ، کردار نبوی سے متاثر ہو کر لاکھوں لوگوں نے آپ کے دست حق پر دین اسلام قبول کیا ۔ آپ کی حیات طیبہ اس حدیث ” من لم يهتم للمسلمين فليس منهم “ کی سچی تصویر تھی ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیشہ اپنے شاگردوں کو یہ تعلیم دی کہ عقیدت مندی کی سب سے اعلی ترین شکل ” مصیبت زدہ لوگوں کی تکلیف دور کرنا ، غریب اور بے بس لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنا اور بھوکوں کو کھانا کھلانا ہے“ ( دلیل العارفین )
ملکی حالات انتہائی زبوں حالی کے دور سے گزر رہے ہیں حکومتی ظلم وزیادتی کے خلاف لوگ میدان میں نکلے ہوۓ ہیں کاشت کاری کے متعلق غیر جمہوری طریقہ سے نافذ کیے جانے والے کالے قوانین کی مخالفت میں کسان مظاہرہ کر رہے ، اقتدار کے نشے میں چور حکمران اندھے ، گونگے اور بہرے بنے ہوۓ ہیں آواز کو طاقت کے بل بوتے پر کچل رہے ہے ۔ ایسے ماحول میں خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک کسان کی پریشانی دور کرنے کےلیے خود دہلی سے سفر کرنا آپ کی خلق پرور تعلیمات کاروشن باب ہے ۔
لوگوں کی حاجت روائی کو دیگر تمام کاموں پر مقدم رکھتے تھے پریشان حال لوگوں کی پریشانی دور کرنے کے لیے آپ بڑی بڑی مشکلات کو برداشت کر لیتے تھے ۔
حضرت مولانا سید مہدی حسن میاں چشتی گدی نشین آستانہ اجمیر شریف دامت برکاتہم العالیہ نے دہلی کے ایک اجلاس میں یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ نواح اجمیر میں ایک کسان نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی سے دہلی حکومت کے ذریعے لگان میں اضافہ کیے جانے کی شکایت کرتے ہوۓ عرض کیا کہ آپ اپنے مرید صادق خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو لگان میں کمی کرنے یا میعادی فرمان کے جاری کرنے کے تعلق سے ایک سفارشی خط لکھیں کہ بادشاہ وقت سلطان شمس الدین التمش ان کا مرید ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ بلا تاخیر اسی وقت دہلی جانے کے لیے تیار ہو جاؤ ، حضرت خواجہ غریب نواز خود بھی دہلی جانے کے لیے نکلے اور کسان کو اپنے ساتھ لے کر راہ کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے دہلی پہنچے ، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی بغیر اطلاع کے اچانک مرشد کامل کی آمد پر بہت مسرور ہوۓ اور حیران ہوۓ اور عرض کیا کہ حضور آپ نے صرف اتنی سی بات کے لیے کیوں سفر کی تکلیف فرمائی صرف خط ہی روانہ فرمادیتے مسئلہ حل ہو جاتا ، آپ نے فرمایا ! اے قطب الدین اگر میں صرف خط بھیجتا تو اس کسان کی دل جوئی کیسے ہوتی ۔ مجھے اللہ تعالی نے اس کام کے لیے متعین کیا ۔
آپ کی پوری زندگی بندگان خدا کی دلجوئی ، احترام انسانیت ، و قار آدمیت ، اخوت و محبت اور عدل و مساوات کے پیغام کو پھیلانے میں صرف ہوئی ۔
خواجہ خواجگاں بلا شبہہ بارگاہ رسول ﷺ سے بھیجے ہوئے تھے ۔ آپ کو حضور سرور کائنات ﷺ نے حکم ہی نہیں دیا بلکہ ہندوستان اور اجمیر مقدس کا نقشہ بھی روحانی طور پر دکھا دیا ۔ آپ نے جس پامردی ، بلند کردار و عمل اور خدمت انسانیت کرتے ہوۓ دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیا اس کی مثال کم از کم ہندوستان میں نظر نہیں آتی ۔ آپ نے دیگر مذاہب کے افراد میں حسن اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوۓ مذہب اسلام سے قریب کیا ، اس سے صرف یہ کہ غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا بلکہ آج تک آپ کی اور دیگر اہم خانقاہوں پر غیر مسلموں کی بھی بھیڑ نظر آتی ہے ۔ بد عقیدوں کو چھوڑ کر ہندوستان کا ہر طبقہ ان اولیاے کرام کے آستانوں پر حاضر ہوتا ہے ۔ سماجی نفرت و عداوت کی چنگاری پھیلانے والے بھی سروں پر چادریں رکھ کر عقیدت و احترام کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہندوستان اور دنیا میں امن و آشتی کا ماحول پیدافرمادے ۔ آمین