زکوۃ کس کو دی جاۓ
اللہ تبارک و تعالی نے مال صدقہ کے مستحق لوگوں کا ذکر قرآن حکیم میں خود ہی تفصیل سے بیان فرمادیا ہے لہذا مال زکوۃ کے حق دار یہی لوگ ہیں ان کے علاوہ دوسروں کو دینا جائز نہیں ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے ۔ إنـمـا الـصـدقـت لـلـفـقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل فريضة من الله والله عليم حكيم
زکوۃ تو ان ہی لوگوں کے لئے ہے ۔ محتاج اور نرے نادار اور جو اسے تحصیل کر کے لائیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جاۓ اور گردنیں چھڑانے میں اور قرض داروں کو اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو ٹھہرایا ہوا ہے ۔ اللہ علم وحکمت والا ہے ۔ مذکورہ بالا آیت میں زکوۃ وصدقات کے مستحق لوگوں کا ذکر فرمایا گیا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو زکوۃ و فطرہ کے صحیح حق دار ہیں ۔ قرآنی آیت میں مذکور صدقات کے حق داروں کی تفصیل
رقاب مکاتب
وہ غلام جو مال معین ادا کرنے کی شرط پر آزادکیا گیا ہو اگر چہ وہ غنی کا غلام ہو یا خود اس کے پاس نصاب سے زائد ہو تو ایسے غلام کو زکوۃ دینا جائز ہے مگر یہ غلام کسی سید کا نہ ہو کہ اس کو زکوۃ دینا جائز نہیں ۔ کیونکہ [ من وجہ ایک لحاظ سے یہ مالک کی ملک میں ہے اور مالک سید ہے تو یہ سید ہی کو زکوۃ پہنچے گی اور اس کو جائز نہیں ۔
غارم یعنی قرض دار کو زکوۃ دینا بھی جائز ہے بشرطیکہ قرض سے زائد کوئی رقم بقدر نصاب اس کے پاس نہ ہو یا کوئی مال حاجت اصلیہ سے فاضل اس کے پاس ایسا نہ ہو کہ جس کی قیمت نصاب کی مقدار کو پہنچے تو ایسے قرض دار کو زکوۃ دینا جائز ہے یہ بھی شرط ہے کہ قرض دار سید نہ ہو کہ آل رسول صلی اللہ تعالی علیہ سلم کے احترام کے سبب کسی حال میں سید کو زکوۃ دینا جائز نہیں کیونکہ یہ مال کا مال کھیل ہے لہذا آپ اپنے پاس سے سید کی خدمت کرو ۔ اگر کسی سید پر قرض ہوتو زکوۃ کے پیسے سے نہیں بلکہ ذاتی روپے سے اس کی مدد کیجئے اللہ تبارک وتعالی آپ کو آل رسول کی خدمت کے بدلے میں اجر عظیم فرماۓ گا ۔ قرض دار کو دینا فقیر سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس کو زیادہ حاجت ہے۔
فی سبیل اللہ: اس سے مراد راہ خدا میں جہاد ہے ۔ جہاد کا لفظ قتال کے مقابلہ میں عام ہے اور جہاد فی سبیل اللہ میں وہ ساری کوششیں شامل ہیں جو مجاہدین نظام کفر کو مٹا کر نظام اسلامی قائم کرنے کے لئے کریں چاہے وہ قلم وزبان ہوں یا تلوار یا ہاتھ پاؤں کی محنت سے ۔ جہاد فی سبیل اللہ سے بالا تفاق اسلام نے صرف وہی کوششیں مراد لی ہیں جو دین قائم کرنے ، اس کی اشاعت و تبلیغ کرنے اور اسلامی مملکت کی حفاظت اور دفاع کے لئے کی جائیں۔اس جد و جہد میں جو لوگ شریک ہوں ان کے سفر کا خرچ ، ان کی سواری آلات و اسلحہ کی فراہمی کے لئے زکوۃ کی رقم صرف کی جاسکتی ہے جو حج کے ارادے سے روانہ ہوں اور راہ میں حادثہ کا شکار ہو کر مالی تعاون کے محتاج ہوں اور وہ طلبہ بھی مراد ہیں جو دین کا علم حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور حاجت مند ہیں ۔ بہت سے لوگ زکوۃ کے مال کو اسلامی مدارس میں بھیج دیتے ہیں ان کو چاہئے کہ متولی مدرسہ کو اطلاع دیں کہ یہ زکوۃ کا مال ہے تا کہ متولی اس کو جدا رکھے اور مال کے ساتھ نہ ملاۓ اور غریب طلبہ پرصرف کرے کسی کام کی اجرت میں نہ دے ورنہ زکوۃ ادا نہ ہوگی۔
• زکوۃ ادا کرنے میں یہ ضروری ہے کہ جس کو بھی دیں اسے مالک بنادیں اباحت کافی نہیں لہذا زکوۃ کا مال مسجد میں صرف کرنا میت کو کفن دینا ، پل بنانا ، سڑک بنانا ، کنواں کھودنا ، کتاب وغیرہ خرید کر وقف کر دینا کافی نہیں ۔ [عالمگیری]
• بیوی شوہر کو اورشوہر بیوی کو زکوۃ نہیں دے سکتا ۔ اگر چہ طلاق بائن بلکہ تین طلاقیں دے چکا ہو ، جب تک عدت میں ہے۔عدت پوری ہوگئی تو اب دے سکتا ہے ۔ (درمختار)
• موتی وغیرہ ، جواہر جس کے پاس ہوں اور تجارت کے لئے نہ ہوں تو ان کی زکوۃ واجب نہیں مگر جب نصاب کی قیمت کے ہوں تو زکوۃ لے نہیں سکتا (درمختار)
• ماں ہاشمی بلکہ سیدانی ہو اور باپ ہاشمی نہ ہوتو وہ ہاشمی نہیں ۔ کہ شرع میں نسب باپ سے ہے لہذا ایسے شخص کوز کو دے سکتے ہیں ۔