خلاف شریعت آرا کی ممانعت
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں اگر چہ تمام لوگوں کو اپنی رائے دینے کی مکمل آزادی تھی لیکن یہ آزادی اس بات سے مشروط تھی کہ کوئی گمراہ کن اور شریعت کے خلاف راۓ پیش نہ کرے ، بصورت دیگر اس کی سرزنش کی جائے گی ۔ بعض اوقات سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ مختلف لوگوں کی پکڑ بھی فرمایا کرتے اور خلاف شرع رائے پیش کر نے پرسزا بھی دیتے تھے ۔
اے اللہ کے دشمن ! میں تیری گردن اڑادوں گا :
ایک بارسید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ملک شام میں خطبہ ارشادفرمارہے تھے ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے حمد وصلوۃ کے بعد ارشادفرمایا : ”من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له“ یعنی جسے اللہ عزوجل ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے اللہ تعالی گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا ۔ تقدیر الہی کا منکر ایک شخص کھڑا ہوا اور فارسی زبان میں کچھ کہا ، سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے مترجم سے فرمایا کہ اس کی بات کا ترجمہ کر کے ہمیں بتاؤ ، مترجم نے کہا کہ حضور یہ کہہ رہا ہے :” إنّ الله لا يضل أحدا“ یعنی اللہ عزوجل کسی کو گمراہ نہیں کرتا ۔ چونکہ اس کا یہ قول تقدیر الہی کے انکار پرمشتمل اور خلاف شریعت تھا اس لیے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے دوبارہ ایسی بات کہنے سے منع کیا اور ارشادفرمایا : ” كذبت يا عدو الله بل الله خلقك وهو أضلك وهو يدخلك النار إن شاء الله ولولا ولت عقداً لضربت عنقک“ یعنی اے اللہ تعالی کے دشمن ! تو جھوٹا ہے ، اللہ تعالی نے تجھے پیدا فرمایا اور اس نے تجھے گمراہ فر ما یا اور اگر وہ چاہے گا تو تجھے جہنم میں داخل فرمائے گا اور اگر آج کے بعد دوبارہ تو نے ایسی بات کہی تو میں تیری گردن اڑادوں گا ۔
اپنی آخرت داؤ پر مت لگائیے :
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! تقدیر کے معاملے میں بحث و مباحثہ کر نامنع ہے ، تقدیر کا انکار کرنے والوں کو اس امت کا مجوس بتایا گیا ہے ۔ یقینا تقدیر کے معاملات پر بحث مباحثہ کرنا اپنی آخرت داؤ پر لگانا ہے ، خود بھی اس معاملے میں بحث کرنے سے بچے اور دیگر اسلامی بھائیوں کو بھی بچائے ۔ چنانچہ صدر الشریعہ بدرالطریقہ مولانامفتی محمد امجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی بہار شریعت جلد اول ص:١١ میں فرماتے ہیں : وہی ( یعنی اللہ) ہر شے کا خالق ہے ، ذوات ہوں خواہ افعال ، سب اسی کے پیدا کیے ہوۓ ہیں ۔حقیقت روزی پہنچانے والا وہی ہے ۔ ملائکہ وغیر ہم وسائل و وسائط ہیں ۔ ہر بھلائی ، برائی اس نے اپنے علم ازلی کے موافق مقد رفرمادی ہے ، جیسا ہونے والا تھا اور جو جیسا کر نے والا تھا ، اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ لیا تو یہ نہیں کہ جیسا اس نےلکھ دیا ہم کوکرنا پڑتا ہے ، بلکہ جیسا ہم کر نے والے تھے ویسا اس نے لکھ دیا ۔ زید کے ذمہ برائی لکھی اس لیے کہ زید برائی کرنے والا تھا ، اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا وہ اس کے لیے بھلائی لکھتا تو اس کے علم یا اس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا ۔ تقدیر کے انکار کر نے والوں کو نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس امت کا مجوس بتایا ۔ قضا کی تین اقسام بیان کرنے کے بعد ج ۱ ، ص ۱۵ پر فرماتے ہیں : ” قضا و قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آسکتے ، ان میں زیادہ غور وفکر کر ناسبب ہلاکت ہے ، صدیق و فاروق رضی اللہ تعالی عنہما اس مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے ۔ ماوشما ( یعنی ہم اور آپ) کس گنتی میں ! اتناسمجھ لو کہ اللہ تعالی نے آدمی کومثل پتھر اور دیگر جمادات کے بے حس وحرکت نہیں پیدا کیا بلکہ اس کو ایک نوع اختیار دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے ، چاہے نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی عقل بھی دی ہے کہ بھلے ، بڑے نفع نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا کر دیے ہیں کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اسی قسم کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پر اس پر مؤاخذہ ہے ۔اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا ، دونوں گمراہی ہیں ۔ برا کام کر کے تقذیر کی طرف نسبت کرنا اور مشیت الہی کے حوالہ کرنا بہت بری بات ہے ، بلکہ حکم یہ ہے کہ جواچھا کام کرے ، اسے من جانب اللہ کہے اور جو برائی سرزد ہواس کو شامت نفس تصور کرے ۔
قرآنی تاویلات پوچھنے والے کو سزا :
ایک بار مدینہ منورہ میں صبیغ نامی ایک شخص آیا جوقرآن پاک کی متشابہ آیات کے بارے میں لوگوں سے طرح طرح کے سوالات کرتا تھا ۔ سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے بلایا اور دوکھجور کی چٹریاں اس کے لیے تیار کر لیں ۔ جیسے ہی وہ آیا تو آپ نے اس سے پوچھا : ‘ ‘ تم کون ہو ؟ ‘ ‘ اس نے کہا : میں اللہ کا بند ہصبیغ ہوں ۔ ‘ ‘ آپ نے ایک چھری اٹھائی اور اسے مارنا شروع کیا اورفرمایا : میں اللہ کا بندہ عمر ہوں ۔ ‘ ‘ آپ اسے مسلسل مارتے رہے یہاں تک کہ اس کا سر پھٹ گیا ۔ اس نے عرض کی : ” اے امیر المؤمنین ! اب بس کر دیجئے ! میرے ذہن میں جو بھی فاسد خیالات تھے وہ سب زائل ہو گئے ہیں ۔
بے جااعتراضات سے احتراز کیجئے :
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! واقعی اپنے آپ کورو بے جا اعتراضات سے بچانا اور صرف ضروری گفتگو کرنا ہی سمجھداری ہے کہ فضول اعتراض بھی شیطان کی طرف سے ایک زبردست وار ہے ، کیونکہ یہ خبیث بعض اوقات چھوٹے چھوٹے بے جا اعتراضات کا عادی بنا کر بعض ایسے بڑے بڑے اعتراضات کروانا شروع کر دیتا ہے جس سے دین و ایمان خطرے میں پڑ جا تا ہے ، یقینا سمجھدار وہی ہے جو اپنے آپ کو فضول اعتراضات سے بچاۓ ۔ صلوا على الحبيب صلى الله تعالى على محمد