خدمت خلق اور شریعت وطریقت تعلیمات خواجہ غریب نواز کی روشنی میں

    بر صغیر ہند و پاک میں صوفیہ کی تاریخ ایک ہزار سال سے زیادہ پرانی ہے ۔ اس دوران یہاں مختلف سلسلوں کے صوفیہ نے امن محبت اور بھائی چارہ کے پیغامات کو عام کیا اور انسان کو انسان کا بھائی بن کر رہنے کا درس دیا ۔ صوفیاے کرام کی تعلیمات کا سب سے نمایاں حصہ ہوتا ہے خدمت خلق اور اس کام کے لیے انھوں نے اپنی خانقاہوں کا استعمال کیا ۔ ان خانقاہوں میں لنگر کا رواج عام ہے ۔ وہ زمانہ جس میں غذائی قلت عام تھی اور لوگوں کو پیٹ بھرنے کے لیے کھانا تک ملنا مشکل ہو تا تھا صوفی اپنی خانقاہوں میں ہر روز ہزاروں افراد کو کھاناکھلایاکرتے تھے ۔ بے شمار لوگ جو خانقاہ میں نہیں آسکتے تھے ان کے گھر پر کھانا بھیج دیا جاتا تھا اور جن لوگوں کے گھر دور تھے ان کے گھر راشن بھیج دیا جاتا ۔ خدمت خلق کا طریقہ عام صوفیوں کا طریقہ تھا مگر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری اس نے اس پر بہت زور دیا اور اسی غریب پروری کے سبب انھیں عوام نے خواجہ غریب نواز “ کے لقب سے پکارنا شروع کر دیا ۔ 

    خواجہ صاحب کی تعلیمات میں اگر چہ مختلف قسم کے سبق موجودہیں مگر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے غریبوں کے امداد و تعاون پر کیونکہ صوفیہ کے نزدیک اللہ تک پہنچنے کا بہتر راستہ ہے اس کے بندوں کی خدمت کرنا ۔ اللہ اپنے ایسے بندوں سے خوش ہوتا ہے جو اس کے بندوں کو خوش رکھتے ہیں ۔ اللہ کو اپنی مخلوق سے بے حد پیار ہے ایک ماں اپنے بچے سے جس قدر محبت کرتی ہے اس سے بہت زیادہ اللہ اپنے بندوں سے محبت کر تا ہے ، لہذاوہ ان لوگوں سے خوش ہوتا ہے جو اس کے بندوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کی خدمت کرتے ہیں ۔ صوفیہ کے یہاں بھی اس پر عمل پایا جاتا ہے ۔ اللہ والوں کی خانقاہیں ہمیشہ بندگان خدا کے لیے کھلی رہتی تھیں اور یہاں سے ہر کوئی اپنے مسئلے کاحل پایا کر تا تھا ۔

    خواجہ معین الدین چشتی کا آستانہ بھی لوگوں کے لیے ہمیشہ پناہ گاہ بنار ہتا تھا اور اس لیے آپ فرماتے ہیں :

    ” عاجزوں کی فریادرسی ، حاجت مندوں کی حاجت روائی ، بھوکوں کوکھاناکھلانے سے بڑھ کر کوئی نیک کام نہیں“ ۔ ( دلیل العارفین )

     خواجہ معین الدین چشتی نے اپنے اس پیغام پر ہمیشہ عامل رہے اور آپ کے اس پیغام کو آپ کے چاہنے والوں نے اپنے لیے حرز جاں بنالیا ۔ آپ کی سیرت میں ملتا ہے کہ کسی کسان کی حاجت روائی کے لیے آپ نے اجمیر سے دلی کا سفر کیا ۔ حالانکہ اس کے لیے آنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ آپ اگر خط لکھ دیتے تو کسان کا کام ہو سکتا تھا اور بادشاہ وقت اس کی مدد کر دیتا مگر غریب کسان کی تالیف قلب کے لیے اجمیر سے دلی کا سفر کیا ۔ صوفیہ کے اس طریقہ کار نے دنیا کا دل جیتا اور انھیں اخلاق کا عملی نمونہ بنایا ۔ ان کے پیغامات صرف زبانی نہیں تھے بلکہ کرداروں کے ذریعے بھی انھوں نے وہی درس دیے جو اقوال و گفتار سے دیے ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ان کے نزدیک خدمت خلق کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ ان کے ایک قول سے ہوتا ہے ۔ 

    جس میں تین خصلتیں ہوں گی ، وہ اس حقیقت کو جان لے کہ خداے تعالی اس کو دوست رکھتا ہے ۔ اول سخاوت دریا کی طرح ٬دوسری شفقت آسمان کی طرح اورتیسری خاکساری زمین کی طرح ۔ فرمایا جس کسی نے نعمت پائی سخاوت سے پائی اور جو تقدم حاصل کرتا ہے ۔صفاۓ باطن سے حاصل کر تا ہے ۔ 

   نماز ، روزہ ، حج وزکوۃ کاحکم اللہ کی طرف سے دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر خدمت خلق کی اپنی فضیلت ہے اور آج کے دور میں اس کی کمی ہے مسجدوں میں نمازیوں کی بھیڑ نظر آتی ہے ، رمضان میں روزہ رکھنے والے بھی کم نہیں ہیں اور حج کے وقت حاجیوں کی کثرت بھی دکھائی دیتی ہے مگر آج کے معاشرے میں اگر کبھی نظر آتی ہے تو خدمت خلق کرنے والوں کی ، اللہ کے بندوں کی غم گساری کرنے والوں کی اور اللہ کی مخلوقات سے اس کی رضا کے لیے بے لوث محبت کرنے والوں کی ۔ 

   اللہ کے بندوں کی خدمت کرنا ، ان کے دکھ درد میں کام آنا ، بھوکوں کو کھانا کھلانا ، ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا اور پریشان حال لوگوں کی پریشانی کو دور کرنا خواجہ غریب نواز کی زندگی کا مقصد تھا ۔ اسے آپ نے اللہ کی رضا کا ذریعہ بنا یا تھا ۔ خود قرآن کریم اور سیرت نبوی میں بھی اس کا حکم ملتا ہے مگر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج نمازی ملتے ہیں حاجی ملتے ہیں ، حج وزکاۃ ادا کرنے والے بھی ملتے ہیں مگر خدمت خلق کرنے والوں کی کمی ہے ۔ حضرت خواجہ غریب نواز کے بعد جولوگ آپ کے نقش قدم پر چلنے والے تھے انھوں نے بھی آپ کے سبق کو یاد رکھااور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرتے رہے ۔ اس مقصد سے ان کے روحانی جانشینوں نے ملک بھر میں خانقاہیں قائم کیں اور خود کو پوری طرح خدمت خلق کے لیے وقف کر دیا ۔ خواجہ غریب نواز نے خدمت خلق کا جو کام شروع کیا تھا وہ بعد کے دور میں بھی جاری رہا اور آپ کے مشن کو آگے بڑھانے والے اس پر عامل رہے ۔ صوفیہ کے تذکرے بتاتے ہیں کہ آپ کے مریدین اور خلفا نے ملک بھر میں خانقاہیں قائم کیں لنگر شروع کیے اور عوام الناس کی فلاح کے کام کیے ۔ خواب قطب الدین بختیار کاکی ، حضرت حمید الدین ناگوری ، بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ، محبوب الہی نظام الدین اولیا اوران کے خلفاو مریدین نے عوامی فلاح کے کام کیے وہ اپنی مثال آپ ہیں اور عین خواجہ غریب نواز کی تعلیمات کے مطابق ہیں ۔ حضرت نظام الدین اولیا رضی اللہ عنہ نے تو اپنے خلفا کو خاص اسی کام کے لیے بنگال ، دکن ، گجرات اور مدھیہ پردیش وغیرہ کے علاقوں میں بھیجا تھا جہاں ان بزرگوں نے اس مشن کو آگے بڑھایا جس کے لیے حضرت خواجہ عثمان ہارونی ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور دیگر صوفیا کوشاں رہتے تھے آج خانقاہی نظام تقریبا ختم ہو چکا ہے اور جو وہ زیادہ تررسمی ہے مگر کاموں کی شروعات پہلے ہو چکی تھی اس کی جھلک آج بھی دیکھنے کومل جاتی ہے ۔ آج بھی خانقاہوں میں لنگر کا اہتمام کیا جاتا ہے جواس لنگر کی یاد ہے جو صوفیا کی خانقاہوں میں چلا کر تا تھا ۔ 

    چشتی سلسلے کے بزرگوں کے ملفوظات مکتوبات اور تذکروں میں خدمت خلق کا درس ہر دور میں رہا ہے اور خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ اپنی مجلسوں میں اس کو بار بار دہراتے رہتے تھے ۔ آپ نے جو اپنے مرشد خواجہ عثمان ہارونی رضی اللہ عنہ کے ملفوظات جمع کیے ہیں ان میں مرشد کے حوالے سے حضرت خواجہ حسن بصری کی کتاب آثارالاولیا ایک حصہ نقل کیا ہے ۔

    صدقہ ایک نور ہے ، صدقہ جنت کی حوروں کا زیور ہے اور صدقہ 80 ہزار رکعت نماز سے بہتر ہے جو پڑھی جاۓ ۔ صدقہ دینے والے روز حشر عرش کے سایے میں ہوں گے ۔ جس نے موت سے قبل صدقہ دیا ہو گا وہ اللہ کی رحمت سے دور نہ ہو گا ۔ پھر فرمایا صدقہ جنت کی راہ ہے جو صدقہ دیتا ہے وہ اللہ سے قریب ہوتا ہے ۔

حضرت خواجہ شریف زندنی کالنگرصبح سے رات تک جاری رہتا ۔ کوئی آتا کھاناکھاکر جاتا ۔ آپ فرمایا کرتے تھے اگر لنگر میں کچھ نہ ہو پانی سےتواضع کر و کوئی خالی نہ جائے-

    پھر فرمایا زمین بھی سخی آدمی پر فخر کرتی ہے ، جب وہ چلتا ہے نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں ۔ ( انیس الارواح ملفوظات خواجہ عثمان ہارونی مرتبہ خواجہ معین الدین چشتی ) 

    صدقہ خدمت خلق کا ذریعہ ہے اور رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں اس کی خاص اہمیت رہی ہے ۔ صوفیہ نے اس سنت پر عمل جاری رکھا اور کم سے کم اثاثے پر زندگی گزار ناقبول کیا ۔ یہ بھی سلسلۂ طریقت میں موجود ہے مگر چشتی سلسلہ جو برصغیر ہند و پاک میں زیادہ پھیلا اس میں خدمت خلق پر خصوصی زور دیا گیا جو صدقہ کی ہی ایک صورت تھی اس لیے خدمت خلق سلسلہ چشتیہ میں صدیوں تک جاری رہا ، خواجہ معین الدین چشتی نے اپنے مرشد کے کئی اقوال تحریر کیے ہیں جو خدمت خلق کے سلسلے میں ہیں ۔ ایک مقام پر ہے : 

   ” جب کوئی پیاسے کو پانی پلا تا ہے ، اس وقت اس کے تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں ، وہ ایسا ہو جا تا ہے گویا ابھی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو اگر وہ مرجائے تو اس کا شمار شہدا میں ہو گا ۔ “ 

   پھر فرمایا : جو بھوکے کو کھانا کھلائے اللہ اس کی ہزار حاجتوں کو پورا فرماتا ہے اور جہنم کی آگ سے اسے آزاد کرتا ہے ، اور جنت میں اس کے لیے ایک محل مخصوص کر تا ہے ۔ 

    ایک دوسری جگہ خواجہ عثمان ہارونی کا ہی قول درج ہے :

    میں نے خواجہ مودود چشتی کی زبانی سناکہ اللہ تعالی تین گروہوں کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے ۔ پہلے وہ باہمت لوگ جو محنت کر کے اپنے کنبہ کو پالتے ہیں ۔ دوسرے جو اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں اور وہ عورتیں جو اپنے شوہروں کا حکم مانتی ہیں ۔ تیسرے جو فقیروں اور عاجزوں کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ 

   صوفی کا ماننا تھاکہ اللہ تعالی رحمن ورحیم ہے لہذا اس کی مخلوق کو اس کی صفت رحمت کا مظہر ہونا چاہیے ۔ وہ کریم ہے اور اپنے بندوں پر کرم فرماتا ہے ۔ وہ محسن ہے اور اپنی مخلوقات پر احسان کر تا ہے وہ اپنی مخلوقات سے بے حد محبت کرتا ہے لہذا اس کی مخلوق کی خدمت کے ذریعے اس کی رضا کو پایا جاسکتا ہے ۔ وہ اپنے بندوں کی خدمت سے خوش ہوتا ہے ۔

خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اور عرفان الہی : 

   شریعت کیا ہے اور طریقت کیا ہے ؟ کیا کوئی شخص شریعت پر عمل سے آزاد ہو سکتا ہے ؟ کیا عرفان الہی کے لیے شریعت پر عمل ضروری ہے ؟ کیا طریقت تک رسائی کے بعد شریعت سے آزادی مل جاتی ہے اس قسم کے سوال عام طور پر سنے کو مل جاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں علماو صوفیا اور بزرگان دین نے بہت واضح جوابات دیے ہیں اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ کی تعلیمات میں بھی اس سلسلے میں وضاحت ملتی ہے   اصل بات یہ ہے کوئی بھی شخص جو مسلمان ہونے کا دعوے دار ہو اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لاۓ ہوۓ دین میں یقین رکھتا ہو وہ جب تک ہوش و خرد میں ہے تب تک دین مصطفوی اور شریعت محمدی کی پیروی سے آزاد نہیں ہوسکتا ۔ خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ ان علمامیں سے تھے جن کا مقصد ہی شریعت محمدی کی دعوت دیناتھا اور اللہ کی زمین پر اللہ کے احکام کو رائج کرنا تھا ۔ آپ کی اس دعوت کے نتیجے میں برصغیر میں اسلام کا پرچم لہرایا اور دین و احکام دین کا بول بالا ہوا ۔

    خواجہ غریب نواز علیہ الرحہ کی تعلیمات کہتی ہیں کہ طریقت شریعت کا ہی حصہ ہے ، اس سے الگ کوئی راہ نہیں ۔ مومن کے لیے ہر حال میں اس پر عمل ضروری ہے اور نماز ، روزہ ، حج ، زکات سمیت تمام احکام شریعت پر عمل لازمی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ خواجہ غریب نواز نے عبادت وریاضت میں کثرت کی اور اہل ایمان کو ہر حال میں احکام شریعت پر عمل کرنے کا حکم دیا ۔ آپ کے ملفوظات ” دلیل العارفین “ میں ایسے اہل اللہ کے واقعات بیان کیے گئے ہیں جنھوں نے نماز وعبادت میں خودکو اسی طرح مصروف رکھا کہ دنیا کے معاملات سے بے نیاز ہو گئے ۔ ” دلیل العارفین میں ایک بزرگ شیخ اوحد الواحد غزنوی کا ذکر ہے ، جن سے خواجہ صاحب دوران سفر ملک شام کے قریب کسی شہر کے باہر ایک غار میں ملے ۔ یہ بزرگ عبادت الہی اور خشیت ربانی کی کثرت سے سوکھ کر خشک لکڑی کی طرح ہو گئے تھے اور جسم پر محض ہڈی اور جلد باقی بچی تھی ۔ بزرگ نے خواجہ صاحب سے فرمایا کہ جب میں نماز اداکر تا ہوں تو اپنے آپ کو دیکھ کر روتا ہوں کہ اگر ذرہ بھر شرط نماز ادا نہ ہوئی تو سب کچھ ضائع ہو جاۓ گا ۔ اس وقت بر طاعت میرے منہ پر دے ماریں گے ۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نماز اور احکام شریعت کی خواجہ صاحب اور ان کے مدوحین کی نظر میں کیا اہمیت تھی ۔ حالانکہ اس کے علاوہ بھی آپ کے ملفوظات میں جگہ جگہ نماز اور احکام دین پر عمل کی تاکید تی ہے ۔ 

شریعت پر عمل کے بغیر چارہ نہیں :

   خواجہ غریب نواز کی تعلیمات کہتی ہیں کہ شریعت پر عمل ہر حال میں لازم ہے اور اس سے کسی بھی طرح نجات نہیں ۔ اس تعلیم پر آپ کے بعد آپ کے جانشینوں نے عمل کیا ۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ، بابا فرید الدین گنج شکر ، محبوب الہی نظام الدین اولیا خواجہ حسام الدین مانک پوری اور اس سلسلے کے دوسرے بزرگوں نےہمیشہ اور ہر حال میں شریعت کے احکام پر عمل کیا ۔ شریعت پرعمل کے بغیر طریقت کی منزل پر گامزن نہیں ہوا جاسکتا ۔ چنانچہ دلیل العارفین میں خواجہ معین الدین چشتی کا قول درج ہے :

   ” راہ شریعت پر چلنے والوں کا شروع یہی ہے کہ جب لوگ شریعت میں ثابت قدم ہو جاتے ہیں اور شریعت کے فرمان بجالاتے ہیں اور ان کے بجالانے میں ذرہ بھر تجاوز نہیں کرتے تو اکثر دوسرے مرتبے پر پہنچتے ہیں جسے طریقت کہتے ہیں ۔ اس کے بعد جب مع شرائط طریقت میں ثابت قدم ہوتے ہیں تمام احکام شریعت بے کم و کاست بجالاتے ہیں تو معرفت کے درجے کو پہنچ جاتے ہیں ، جب معرفت کو پہنچتے ہیں تو شاخت و شناسائی کامقام آجاتا ہے ۔ جب اس مقام پر بھی ثابت قدم ہو جاتے ہیں تو درجۂ حقیقت کو پہنچتے ہیں ۔ اس مرتبے پر پہنچ کر جو بھی طلب کرتے ہیں پا لیتے ہیں –

 عارف کون ہے ؟

    تصوف نام ہے عرفان خداوندی کے راستے کا اور اس راستے پرچلنے والوں کو ہی صوفی یا عارف کہا جا تا ہے ۔ راہ تصوف و عرفان کے راہی اپنے خالق و مالک کے عرفان کی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں ۔ صوفیہ راستے کو طویل اور مشکلوں سے بھرا ہوا مانتے ہیں ۔ اس راستے پر چلنے والوں کو دوران سفر مختلف قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تب عرفان خداوندی کی منزل ملتی ہے خواجہ معین الدین چشتی فرماتے ہیں:

    عارف اس شخص کو کہتے ہیں کہ تمام جہان کو جانتا ہواورعقل سے لاکھوں معنی پیدا کر سکتا ہو اور بیان کرسکتا ہواور محبت تمام دقائق کا جواب دے سکتا ہو اور ہر وقت بحر باطن و کتہ میں تیرتا رہے تاکہ اسرار الہی اور انوار الہی کے موتی نکالتا رہے اور دیدہ ور جوہریوں کے سامنے پیش کر تا ہے ۔ جب وہ اسے دیکھیں پسند کریں ۔ ایسا شخص بے شک عارف ہے ۔ “

    بعد ازاں اس وقت فرمایا کہ : عارف ہر وقت ولولہ عشق میں مبتلا رہتا ہے اور قدرت خدا کی آفرنیش میں متحیر رہتا ہے ۔ اگر کھڑا ہے تو دوست کے وہم میں اور اگر بیٹھا ہے تو بھی دوست کا ذکر کر تا ہے ۔سویا ہے تو بھی دوست کے خیال میں متحیر ہے ۔ اگر جاگتا ہے تو بھی دوست کے حجاب عظمت کے گرد طواف کرتا ہے ۔ 

عرفان الہی کا راستہ :

   عرفان و تصوف کی راہیں خداشناسی کی راہیں ہیں ۔ یہاں منزل تک رسائی کے لیے کئی مشکل مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اس راہ پر چلنے والے زہد و تقوی اور عبادت وریاضت کو اپنا معمول بنالیتے ہیں ۔ جس طرح موتی پانے کے لیے سمندر میں غوطے لگانا پڑتا ہے اسی طرح عرفان حق کے لیے بھی عبادت وریاضت کے دشوار گزار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔ انسان کی تخلیق کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کا عرفان حاصل کرے اور اسے پہچاننے کی کوشش کرے ۔ حالانکہ اللہ کی ذات ایسی نہیں کہ وہ انسان کے وہم و گمان میں بھی آسکے مگر باوجود اس کی ذات و صفات کو سمجھنے کی کوشش لازمی ہے ۔ حالانکہ اس جدوجہد میں ایک مقام وہ بھی آتا ہے جب عارف کی جانب رحمت الہی متوجہ ہوتی ہے ۔

   حضرت خواجہ غریب نواز نے فرمایا : ” عرفان میں ایک حالت ہوتی ہے ، جب اس پر یہ حالت طاری ہوتی ہے تو وہ ایک ہی قدم میں عرش سے حجاب عظمت تک کا فاصلہ طے کر لیتا ہے ۔ وہاں سے حجاب کبریا تک پہنچ جاتے ہیں ، پھر دوسرے قدم پر اپنے مقام پر آجاتے ہیں ۔ ( پھر خواجہ صاحب آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا ) عارف کا سب سے کم درجہ یہی ہے لیکن کامل درجہ اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ کہاں سے کہاں تک ہے ۔ “ 

شریعت پر عمل لازم ہے:

    شریعت کو اس کی روح کے مطابق عمل میں لانا ہی راہ طریقت کامقصد ہے ۔ شریعت پر کامل طور پر عمل کرنے والا ہی طریقت کے راستے کا مسافر کہا جاتا ہے ۔ انسان اللہ کے احکام پر جس قدر عامل ہو گا ، وہ اس قدر کامل سالک ہو گا ۔ ایسے میں ایک مقام آتا ہے جب سالک کا دل عشق الہی کی بھٹی میں تپ کر پختہ ہوجا تا ہے ۔ حضرت معین الدین چشتی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ عاشق کادل محبت کا آتش کدہ ہوتا ہے ۔ جو کچھ اس میں جاۓ اسے جلادیتا ہے اور نا پید کر دیتا کیوں کہ عشق کی آگ سے بڑھ کر کوئی آگ تیز نہیں ہے ۔ “

    شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ 

    اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی

   اس مضمون میں خواجہ غریب نواز کے ملفوظات سے جو اقتباس پیش کیے ۔ ان سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ طریقت کی راہ شریعت سے الگ نہیں ہے اور احکام دین پر عمل ہر حال میں لازم و ضروری ہے ۔ انسان طریقت میں جتنا کامل ہو گا ، وہ شریعت پر اس قدر کار بند ہو گا ۔ آج ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو خواجہ معین الدین چشتی کی عقیدت کا دم بھرتے ہیں اور ان کے آستانے پر حاضری دینا باعث خیر و برکت سمجھتے ہیں ۔ اللہ والوں سے عقیدت و محبت اچھی بات ہے اور آداب شریعت کا لحاظ کرتے ہوۓ ان کے آستانوں پر حاضری بھی باعث اجرو ثواب ہے مگر اس کے ساتھ بھی ضروری ہے کہ ان کی تعلیمات کو اپنایاجاۓ ۔ انھوں نے جس مقصد کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی اور جس مشن کے لیے وہ اپنے وطن کو چھوڑ کر ہزاروں میل دور ہندوستان تشریف لاۓ ، اس مشن میں لگنا انھیں سب سے بڑا خراج عقیدت ہے ۔ اگر ہم خواجہ صاحب کا عقیدت کا دم بھرتے ہیں تو ضروری ہے کہ احکام شریعت کی پابندی کریں اور عرفان الہی کی کوشش کریں ۔ انھوں نے اللہ اور اس کے بندوں سے محبت کا درس دیا ہے اس پر عمل پیرا ہوں اور انسانیت کے خیر خواہ بنیں ۔ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین یارب العالمین ۔

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے