حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ابتدائ حالات


حضرت سید نا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت واقعہ فیل کے چھ برس بعد طائف میں ہوئی ۔ اس لحاظ سے آپ حضور نبی کریم ﷺ سے تقریبا چھ برس چھوٹے تھے۔حضرت سیدنا عثمان غنی کا خاندان بنوامیہ زمانہ جاہلیت سے ہی قریش میں غیر معمولی اہمیت رکھتا تھا ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے خاندان کے پاس اس وقت قریش کی فوج کا محکمہ تھا اور آپ کے قوم کے پر چم پر عقاب کا نشان تھا ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار بھی بنوامیہ کے معززین میں ہوتا تھا ۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ابتدائ حالات

ابوسفیان جو کہ حضور نبی کریم ﷺ کا سب سے بڑا جانی دشمن تھا اس کا تعلق بھی آپ کے خاندان بنوامیہ سے تھا اور حضور نبی کریم ﷺ کے اعلان نبوت کے وقت وہی قریش کی فوج کا سپہ سالا رتھا ۔ قریش میں خاندان بنوامیہ کو اپنے منصب اور معاشرتی ذمہ داریوں کی وجہ سے اہم مقام حاصل تھا ۔ اس وقت قریش میں بنو امیہ کے علاوہ صرف بنو ہاشم کو زیادہ عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تا تھا ۔ بنو ہاشم کے پاس اس وقت چاہ زمزم اور حجاج کرام کی خاطر مدارت کی ذمہ داری تھی اور جب مکہ فتح ہوا تو اس وقت بھی حضور نبی کریم ﷺ کے چچا حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اس ذمہ داری پر فائز تھے ۔
بنو ہاشم چونکہ سخاوت اور فیاضی میں بے مثال تھے اس لئے جس وقت دین اسلام کا سورج طلوع ہونے لگا یہ خاندان زوال کا شکار ہونا شروع ہو گیا اوران پر تنگ دستی کا دور شروع ہونے لگا ۔ چاہ زمزم اور حجاج کرام کی ذمہ داریاں بنو امیہ نے سنبھال لیں یہی وجہ ہے کہ جب حضور نبی کریم ﷺ نے نبوت کا اعلان کیا تو سب سے زیادہ مخالفت بھی بنوامیہ نے کی۔
حضرت سید نا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے لڑکپن میں ہی ابتدائی تعلیم وتربیت حاصل کی اور لکھنا پڑھنا سیکھ لیا ۔ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جب اس دور کے رائج تمام مروجہ علوم پر دسترس حاصل کر لی تو اہل قریش میں آپ کو نمایاں عزت ملنے لگی کیونکہ اس دور میں قریش میں صرف چند افراد ہی لکھنا پڑھنا جانتے تھے ۔ حضرت سیدنا عثمان غنی تعلیم و تربیت سے فارغ ہونے کے بعد اپنے خاندانی پیشے تجارت سے وابستہ ہو گئے اور اپنا مال تجارت لے کر دوسرے ممالک کا سفر کرنے لگے۔

آپ رضی اللہ عنہ کی اصول پسندی اور ایمانداری کی وجہ سے لوگ آپ کو اپنا مال تجارت کی غرض سے دینے لگے ۔ حضرت سید نا عثمان غنی نے جلد ہی اپنی ایمانداری اور نیک نیتی کی وجہ سے اپنے کاروبار میں بے پناہ اضافہ کرلیا اور کپڑے کی تجارت میں آپ کا نام ایک نمایاں مقام کا حامل تھا ۔ آپ اپنی اصول پسندی کی وجہ سے جلد ہی قریش کے امیر ترین افراد میں شامل ہونے لگے ۔ آپ رضی اللہ عنہ تجارت کے ساتھ ساتھ فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش رہتے تھے اورفقراء ومساکین کا خاص خیال رکھتے تھے ۔ آپ کی انہی فلاحی سرگرمیوں کے پیش نظر لوگ آپ کو غنی ‘‘ کے لقب سے پکارنے لگے ۔ حضرت سیدنا عثمان غنی نے ابتداء سے ہی شریف النفس تھے اور زمانہ جاہلیت کی تمام برائیوں سے کنارہ کش رہتے تھے ۔ آپ نے زندگی گزارنے کے لئے کچھ سنہری اصول مرتب کر رکھے تھے جن پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے آپ دن رات ترقی کی منازل طے کرتے ہوۓ اہل قریش میں ایک نمایاں تاجر کی حیثیت سے اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوۓ ۔
حضرت سیدنا عثمان غنی نے قبول اسلام کے بعد بھی تجارت کا پیشہ جاری رکھا اور اپنے انہی سنہری اصولوں کی بناء پر ترقی کی منازل طے کرتے رہے ۔

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے