حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام
حضور نبی کریم ﷺ نے جس وقت نبوت کا اعلان کیا اس وقت حضرت سیدنا عثمان غنی کی عمر مبارک ۳۴ برس تھی ۔حضرت سیدنا عثمان غنی نے ابتداء میں اسلام قبول کرنے والے چند ایک مسلمانوں میں سے تھے ۔ آپ نے حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت پر اسلام قبول کیا ۔ حضرت سیدنا عثمان غنی نے اپنے قبول اسلام کے واقعہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ جس وقت حضور نبی کریم ﷺ نے نبوت کا اعلان کیا اس وقت ابتداء میں چند افراد نے اسلام قبول کر لیا ۔ میں ایک روز اپنی خالہ سعدی بنت کریز کے گھر گیا۔خالہ کے گھر حضور نبی کریم ﷺ کے دعوی نبوت کا تذکرہ چھڑ گیا ۔ میری خالہ نے حضور نبی کریم ﷺ کے دعوی کی تصدیق کرتے ہوۓ آپ ﷺ کی تعریف فرمائی اور کہا کہ وہ صادق اور امین ہیں اور وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے ۔ پھر انہوں نے کاہنوں کے انداز میں گفتگو کرتے ہوۓ کہا کہ عثمان ! تمہاری دو ازواج ہوں گی جو نہایت حسین اور خوب سیرت ہوں گی تم نے اس سے پہلے بھی ایسی حسین عورتیں نہ دیکھی ہوں گی اور نہ ہی انہوں نے تم جیسا خاوند ۔ وہ عورتیں نبی کی صاحبزادیاں ہوں گی ۔ پھر انہوں نے کہا کہ وہ نبی محمد رسول اللہ ﷺ ہیں ۔
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خالہ کی باتیں سننے کے بعد میں اپنے دوست حضرت سیدنا ابوبکر صدیق کے پاس گیا جو اس وقت اسلام قبول کر چکے تھے ۔ میں نے اپنی خالہ کی تمام باتیں ان کے گوش گزار کیں تو انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ عثمان تم مجھدار اور معامل فہم ہو اور ہر کام میں غور وفکر سے کام لیتے ہو تم جانتے ہو کہ یہ بے جان بت نہ تو کسی کو کچھ فائدہ دیتے ہیں نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اگر یہ پتھر کے بت ہمیں کچھ فائدہ وہ نقصان نہیں دے سکتے تو یہ ہمارے رب کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اس کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق نے مجھے اسلام کی دیگر باتیں بتائیں ۔ میں ان کی باتوں سے متاثر ہوا اور ان سے کہنے لگا کہ آپ درست کہتے ہیں کہ یہ پتھر کے بت واقعی ہمارے معبود نہیں ہو سکتے ۔
پھر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق نے مجھ سے کہا کہ تمہاری خالہ نے درست کہا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کو اللہ عزوجل نے نبی برحق بنا کر بھیجا ہے تا کہ و خلق خدا کو اللہ عز وجل کی وحدانیت کا درس دیں ۔ حضرت سید نا عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ پر حضرت سیدنا ابو بکر صدیق کی باتوں کا اثر ہوا اور انہوں نے جس طرح دلائل کے ساتھ مجھے دین اسلام کی حقانیت سے آگاہ کیا اس سے میرے دل میں دین اسلام کے متعلق کسی قسم کا کوئی شبہ باقی نہ رہا ۔ پھر حضرت سیدنا ابوبکرصدیق نے مجھے دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔ حضرت سیدنا عثمان غنی فرماتے ہیں کہ میں شش و پنج میں مبتلا تھا کیونکہ میرا خاندان بنو ہاشم کی طرح حضور نبی کریم ﷺ کے اعلان نبوت کے بعد ان کا دشمن ہو چکا تھا اور میرے خاندان کا ایک سردار ابوجہل ، حضور نبی کریم ﷺ سے دشمنی میں پیش پیش تھا ۔
اس دوران حضور نبی کریم ﷺ حضرت سیدنا علی المرتضی کے ہمراہ اس جگہ سے گزرے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق نے حضور نبی کریم ﷺ کو دیکھا تو تعظیماً اٹھ کھڑے ہوۓ ۔ میں بھی ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے مجھے دیکھا اور فرمایا : اے عثمان ! اللہ عز وجل تمہیں جنت کی مہمانی کے لئے بلاتا ہے تم اس کی دعوت قبول کرو اللہ وجل نے مجھے تمہاری اور تمام مخلوق کی رشد و ہدایت کے لئے حکم فرمایا ہے اسلام قبول کرنے میں ہی سب کی بھلائی اور بہتری ہے اور میں تمہیں اس بھلائی اور بہتری کی دعوت دیتا ہوں ۔
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جب حضور نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سےیہ کلمات سنے تو آپ نے بغیر کسی تردد کے اسلام قبول کر لیا ۔ آپ نے اسلام قبول کرنے والے اس وقت چوتھے مسلمان تھے ۔ آپ ان سے قبل ام المومنین حضرت خدیجہ یا حضرت سیدنا ابوبکر صدیق پانی اور حضرت سیدنا علی المرتضی اسلام قبول کر چکے تھے۔حضرت سید نا عثمان غنی کی خالہ کی کہی ہوئی باتیں بھی سچ ثابت ہوئیں اور حضور نبی کریم ﷺ کی دوصاحبزادیاں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی نکاح میں آئیں ۔
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم مریم کی ملاقات سے پہلے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق نے اپنے علم حسن خلق اور صحبت نبوی ﷺ کی تاثیر سے اور حضور نبی کریم ﷺ کی محبت میں ایسی گفتگو فرمائی تھی کہ میرے دل میں حضور نبی کریم سلم کی صحبت کی خواہش پیدا ہو گئی تھی ۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق کے اس عشق کی بدولت بے شمار لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوۓ اور ان کی تبلیغ میں ایک کشش اور درانی تھی جس کی وجہ سے جو بھی ان کی بات سنتاوہ ان کوردنہ کرتا تھا ۔ حضرت سید نا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے قبیلہ کی مخالفت کرتے ہوۓ اسلام قبول کیا تھا اور اس بات کا آپ کو اندازہ تھا کہ آپ کے قبیلے والے آپ کی مخالفت کریں گے لیکن آپ نے ان کی مخالفتوں کی کچھ پرواہ نہ کی اور خود کو حضور نبی کریم ﷺ کی غلامی میں دے دیا ۔ وہ غلامی جس پر آپ تا دم شہادت فخر کیا کرتے تھے ۔ حضرت سیدنا عثمان غنی ان کو بھی حضور نبی کریم ﷺ اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق کی طرح اپنے خاندان کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور آپ کے خاندان والوں بالخصوص آپ کے چچا حکم بن العاص نے آپ کو تشدد کانشانہ بنایا اور ایک کمرے میں بند کر دیا اور کہا کہ میں تمہیں اس وقت تک آزاد نہ کروں گا جب تک تم دین اسلام کونہیں مچوڑ دیتے ۔ اس دوران آپ کو رسیوں میں جکڑ کر مارا جا تا ۔ آگ جلا کر دھواں دیا جا تا مگر آپ نے دین اسلام پر قائم رہے ۔ جب حکم بن العاص نے دیکھا کہ ان کا بھتیجا کسی بھی طرح دین اسلام چھوڑ نے پر راضی نہیں تو اس نے آپ ان کو آزاد کر دیا ۔