حضرت امام الدین محمد بن دقیق العید قشیری علیہ الرحمہ
نام و نسب : آپ کا اسم گرامی : محمد ، کنیت : ابو الفتح ، لقب تقی الدین ہے ۔ آپ ابن دقیق العید کے نام سے مشہور ہوئے ۔ والد کا نام علی والدہ شیخ مقرح کی دختر ہیں ۔ آپ کریم الطرفین ہیں ۔ سلسلۂ نسب محمد بن علی بن وہب بن مطیع بن ابوالطاعہ قشیری ۔ ولادت : حجاز کے مشہور شہر ینیع “ کے قریب 25 شعبان المعظم 625 ھ میں پیدا ہوۓ ۔ وطن کا نام ” ” منفلوط “ ہے ۔ جس کی طرف نسبت کرتے ہوۓ آپ کو منفلوطی بھی کہا جاتا ہے ۔ شیخ تقی الدین کے والد قوص “ سے مکہ مکرمہ کی طرف حج کے ارادہ سے روانہ ہوئے ، راستے میں آپ کی ولادت ہوئی ، والد ماجد نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو خانہ کعبہ کا طواف کرایا اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یہ دعا کی : اے اللہ ! میرے بیٹے کو عالم اور عامل بنادے ۔ ( طبقات الشافعیة الکبری ، ج : 5 ، ص : 116 ، دار الکتب العلمیۃ ، بیروت) تحصیل علم : ابن دقیق العید کو خالق کائنات نے تحصیل علم کی اعلی استعداد اور ذوق طلب سے سرفراز فرمایا تھا ۔ آپ نے متعدد شیوخ اور اساتذہ سے اکتساب علم کیا ، جن کے اسماے گرامی مندرجہ ذیل ہیں : والد ماجد حضرت علی ، امام ابوالحسن بن المقیر ، ابن رواج ، امام ابن جمیزی ، سبط السلفی ، حافظ ذکی الدین ، علامہ رزین خالد ، علامہ احمد بن عبد الدائم ، ابوالبقا خالد بن یوسف و غیر ہم ۔ ( تذکرۃ الحفاظ ، ج : 2 ، ص : 182 ، دار الکتب العلمیہ ، طبقات الشافعیة الکبری ، ج : 5 ، ص : 116 ) علم وفضل : حضرت علامہ تقی الدین علم و فضل میں یکتاے روز گار تھے ۔ اللہ تعالی نے آپ کو بے پناہ صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا تھا ، زہد و ورع میں اپنے معاصرین پر فائق تھے ۔ علماے اسلام نے آپ کی شان میں خطبے پڑھے ہیں ، چند نمونے درج ذیل ہیں : حافظ قطب الدین حلبی فرماتے ہیں : و ھو خبير بصناعة الحديث ، عالم بالاسماء والمتون واللغات و في الأصلين والعربية والادب . “ ( الدرر الكامنة في اعيان المأة الثامنة ، ج : 2 ، ص : 59 ، دار الكتب العلميه ، بيروت )
حضرت شیخ ابن دقیق العید فن حدیث کے جانکار ، علم اسما ، رجال حدیث ، متون اور لغات کے عالم تھے ، دونوں اصل ( کتاب وسنت ) اور عربی زبان و ادب میں انھیں ید طولی حاصل تھا ۔ ابن زملکانی فرماتے ہیں : ترجمہ : آپ اپنے فن میں امام الائمہ اور اپنے زمانے میں علما کی شناخت تھے بلکہ ادھر چند سالوں میں علم و دین داری اور زہد ورع میں آپ کے مثل کوئی پیدانہ ہوا ۔ بہت سے علوم و فنون میں منفر دالمثال ، علم تفسیر اور حدیث کے عالم تھے ۔ دونوں مذہبوں ( مالکی ، شافعی ) کی تحقیق فرماتے ، دونوں اصل ( کتاب وسنت ) نحو اور لغت کے جانکار تھے تحقیق ، تدقیق اور معانی کے ادراک کے سلسلے میں آپ ہی کی طرف رجوع کیا جاتا ۔ موافق اور مخالف سبھوں نے آپ کا اعتراف کیا ہے ، بادشاہوں نے آپ کی تعظیم و تکریم کی ، سلطان لاحین آپ کے لیے اپنے تخت سلطنت سے اتر جاتا اور آپ کے دست مبارک کا بوسہ دیتا۔ ذات باری تعالی کے سلسلے میں صحیح الاعتقاد اور ٹھوس تھے ۔ ( ایضا ) شہاب محمود فرماتے ہیں : ” لم تر عینی آدب منه ولولم يدخل في القضاء لكان ثوری زمانه وأوزاعي . “ ( ايضا )
ترجمہ : میری آنکھوں نے آپ سے زیادہ با ادب نہ دیکھا اور اگر آپ قضا میں مشغول نہ ہوتے تو اپنے عصر کے ثوری اور اوزاعی ہوتے ۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں : ” ابن دقیق العید ازکیاے زمانہ میں شمار ہوتے تھے ، وسیع علم و کمال والے تھے ، کتابوں پر کثرت سے نظر رکھتے تھے ، عابد شب زندہ دار اور ہر وقت تعلیم و تعلم میں مشغول رہتے تھے ، پر وقار ، پر سکون ، صاحب ،
ورع اور تقوی شعار تھے ، آپ جیسے صاحب فضل و کمال کو کم ہی آنکھوں نے دیکھا ہے ۔ ( تذکرۃ الحفاظ ، ج : 2 ، ص : 182 ، دار الکتب العلمیہ ، بیروت )
کشف و کرامات : حضرت علامہ ابن دقیق والے صاحب علم و فضل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم صوفی کامل بھی تھے ۔ آپ سے بہت سی کرامتوں کا ظہور ہوا ۔ بستان المحدثین ، طبقات الشافعیہ وغیرہ میں آپ کی کرامتوں کا تذکرہ موجود ہے ، بعض کرامتیں مندرجہ ذیل ہیں : ( 1 ) تاتاریوں نے اپنی یلغار اور حملہ سے عالم اسلام اور بلاد اسلام میں عجیب حالت پیدا کر دی تھی ، جس بستی میں جاتے گھر کا گھر ویران کر دیتے ۔ جب انھوں نے بلاد شام کارخ کیا تو بادشاہ نے ان کے فتنوں اور حملوں سے امن پانے کے لیے علما کو حکم دیا کہ بخاری شریف ختم کریں تاکہ اس کی برکتوں سے یہ بلاے عظیم دفع ہو جاۓ ۔ چناں چہ علما نے بخاری شریف کا دورہ کیا ، جب آخری حصہ رہ گیا تو انھوں نے اسے چھوڑ دیا تاکہ جمعہ مبارکہ کے دن بخاری شریف ختم کریں ۔ جمعہ کے دن شیخ الاسلام تقی الدین علما کے پاس جامع مسجد میں تشریف لائے اور پوچھا کہ بخاری شریف کے ختم سے فارغ ہو گئے ؟ سب نے عرض کیا کہ ہم نے آج ہی کے دن کے لیے تھوڑا سا حصہ چھوڑا ہے اور اسے آج ختم کریں گے ۔ تو حضرت ابن دقیق العید انتظامیہ نے فرمایا : ” انفصل الحال من أمس العصر وبات المسلمون على كذا “ یعنی مقدمے کا فیصلہ کل عصر کے وقت ہی ہو گیا تاتاری فوج شکست کھا گئی اور مسلمان اس وقت فلاں مقام پر قیام پزیر ہیں ۔ لوگوں نے عرض کیا کہ کیا ہم اس خبر کو عام کر دیں ؟ فرمایا : ہاں ! چناں چہ چند روز کے بعد وہی خبر موصول ہوئی جس کی آپ نے بشارت دی تھی ۔ ( المنتضاء طبقات الشافعیة الکبری ، ج 5 ، ص : 117 )
( 2 ) ایک امیر جو قاہرہ سے نکل رہا تھا اس کے بارے میں فرمایا کہ یہ قاہرہ واپس نہیں لوٹے گا چناں چہ ایسا ہی ہوا کہ وہ قاہرہ دوبارہ نہ جاسکا ۔
زہد و عبادت : حضرت ابن دقیق العید عابد شب زنده دار تھے ۔ اپنے اکثر اوقات عبادت وریاضت ، درس و تدریس اور مطالعہ کتب میں گزارتے تھے ، بسا اوقات ایک رات میں ایک جلد یا دو جلد مطالعہ کر لیتے ، ایک ہی آیت کی تکرار پوری رات کرتے اور صبح ہو جاتی ۔ ایک مرتبہ آپ نے آیت کریمہ ” فإذا نفخ في الصور فلا أنساب بينهم يومين ولا يتساءلون ‘ ‘ ( اور نماز فجر تک اس ایک آیت کی تکرار کرتے رہے ۔ ( ایضا )
امام شہاب الدین احمد بن ادریس مالکی فرماتے ہیں : چالیس سال تک رات میں نہ سوئے ان ایام میں صبح کی نماز ادا کر کے چاشت کے وقت تک اپنے پہلو پرلیٹ جاتے ۔ ( الدرر الکامنہ ، ج : 2 ، ص : 60 )
خدمات و کارنامے : حضرت ابن دین العید نے دین متین کی بے شمار خدمتیں انجام دیں ۔ لوگوں کے مسائل کا حل فرماتے درس و تدریس کے ذریعے کتاب اللہ اور احادیث رسول کی تبلیغ فرماتے ۔ آپ نے کئی کتابیں تصنیف فرمائیں ۔ علماے اسلام نے آپ کی خدمات اور کارنامے کی بنیاد ساتویں صدی ہجری کا مجدد قرار دیا ہے ۔
حضرت علامہ تاج الدین ابو نصر عبدالوہاب سبکی فرماتے ہیں :
ترجمہ : ہمارے مشائخ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابن دقیق العید وہ عالم ہیں جو ساتویں صدی ہجری میں بھیجے گئے ، جس کی طرف حدیث نبوی میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ ( طبقات الشافعیة الکبری ، ج : 5 ، ص : 116
تلامذہ : آپ کے علمی کمالات سے بہت سے لوگوں نے اکتساب فیض کیا ۔ ان میں چند حضرات کے اسماے گرامی مندرجہ ذیل ہیں : ” قاضی القضاۃ شیخ علاءالدین قونوی ، علم الدین بن اختنائی اور حافظ قطب الدین وغیرہ ۔ “ ( تذکرۃ الحفاظ ، ج : 2 ، ص : 182 )
عہدہ قضا : این دقیق العید کی فقہی عظمت و صلاحیت کی بنیاد پر آپ کو مصر کا قاضی مقرر کیا گیا ۔ آپ نے اس عہدہ کی قبولیت سے کئی بار انکار فرمایا اور کئی بار آپ نے استعفا دیا مگر ہر بار عہدہ قضا منظور کرنے پر آپ کو مجبور کیا گیا ۔ ( ایضا )
تصانیف : درس و تدریس اور عبادت وریاضت کی مشغولیت کے باوجود کئی نادر اور علمی حقائق سے لبریز کتابیں بھی تصنیف فرمائیں ۔ ( 1 ) کتاب الالمام في أحاديث الأحكام ( 2 ) شرح العمدة ( 3 ) أربعين في الرواية عن رب العالمين ( 4 ) علوم الحديث ( 5 ) الأربعون ( 1 ) شرح مقدمة المطرزی ، وغیرہ ۔
شعروشاعری : علم وادب اور شاعری میں آپ اعلی کمال کے حامل تھے ۔عربی زبان میں بہت سے اشعار بھی لکھے ہیں ، آپ کی شاعری کا دیوان ” دیوان ابوافتح “ کے نام سے مشہور ہے ۔
وفات : صفر 702 ھ میں علم وفضل کا آفتاب دیار مصر میں ہمیشہ کے لیے روپوش ہو گیا ۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون )