Dynamic Share Icon

حضرت الياس عليہ السلام

یہ حضرت حزقیل علیہ السلام کے خلیفہ اور جانشین ہیں۔ بیشتر مؤرخین کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت الیاس علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور ان کا نسب نامہ یہ ہے۔ الیاس بن یاسین بن فحاس بن عیزار بن ہارون علیہ السلام – حضرت الیاس علیہ السلام کی بعثت کے متعلق مفسرین و مورخین کا اتفاق ہے کہ وہ شام کے باشندوں کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے اور "بعلبک“ کا مشہور شہر ان کی رسالت و ہدایت کا مرکز تھا۔

ان دنوں ”بعلبک“ شہر پر "ارجب” نامی بادشاہ کی حکومت تھی جو ساری قوم کو بت پرستی پر مجبور کیے ہوئے تھا اور ان لوگوں کا سب سے بڑا بت "بعل” تھا جو سونے کا بنا ہوا تھا اور بیس گز لمبا تھا اور اس کے چار چہرے بنے ہوئے تھے اور چار سو خدام اس بت کی خدمت کرتے تھے، جن کو ساری قوم بیٹوں کی طرح مانتی تھی اور اس بت میں سے شیطان کی آواز آتی تھی جو لوگوں کو بت پرستی اور شرک کا حکم سنایا کرتا تھا۔

اس ماحول میں حضرت الیاس علیہ السلام ان لوگوں کو توحید اور خدا پرستی کی دعوت دینے لگے مگر قوم ان پر ایمان نہیں لائی ۔ بلکہ شہر کا بادشاہ "ارجب” ان کا دشمن جاں بن گیا اور اس نے حضرت الیاس علیہ السلام کو قتل کر دینے کا ارادہ کر لیا۔ چنانچہ آپ شہر سے ہجرت فرما کر پہاڑوں کی چوٹیوں اور غاروں میں روپوش ہو گئے اور پورے سات برس تک خوف وہراس کے عالم میں رہے اور جنگلی گھاسوں اور جنگل کے پھولوں اور پھلوں پر زندگی بسر فرماتے رہے۔ بادشاہ نے آپ کی گرفتاری کے لیے بہت سے جاسوس مقرر کر دییے تھے۔ آپ نے مشکلات سے تنگ آکر یہ دعا مانگی کہ الہی! مجھے ان ظالموں سے نجات اور راحت عطا فرما تو آپ پر وحی آئی کہ تم فلاں دن فلاں جگہ پر جاؤ اور وہاں جو سواری ملے بلا خوف اس پر سوار ہو جاؤ۔ چنانچہ اس دن اس مقام پر آپ پہنچے تو ایک سرخ رنگ کا گھوڑا کھڑا تھا۔ آپ اس پر سوار ہو گئے اور گھوڑا چل پڑا تو آپ کے چچا زاد بھائی حضرت الیسع علیہ السلام نے آپ کو پکارا اور عرض کیا کہ اب میں کیا کروں؟ تو آپ نے اپنا کمبل ان پر ڈال دیا۔ یہ نشانی تھی کہ میں نے تم کو بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے اپنا خلیفہ بنا دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو لوگوں کی نظروں سے اوجھل فرمادیا اور آپ کو کھانے اور پینے سے بے نیاز کر دیا اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی جماعت میں شامل فرمالیا اور حضرت الیسع علیہ السلام نہایت عزم و ہمت کے ساتھ لوگوں کی ہدایت کرنے لگے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہر دم ہر قدم پر ان کی مددفرمائی اور بنی اسرائیل آپ پر ایمان لائے اور آپ کی وفات تک ایمان پر قائم رہے۔

حضرت الیاس کے معجزات

اللہ تعالیٰ نے تمام پہاڑوں اور حیوانات کو آپ کے لیے مسخر فرما دیا اور آپ کو ستر انبیاء کی طاقت بخش دی ۔ غضب و جلال اور قوت و طاقت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہم پلہ بنا دیا۔ اور روایات میں آیا ہے کہ حضرت الیاس اور حضرت خضر علیہما السلام ہر سال کے روزے بیت المقدس میں ادا کرتے ہیں اور ہر سال حج کے لیے مکہ مکرمہ جایا کرتے ہیں اور سال کے باقی دنوں میں حضرت الیاس علیہ السلام تو جنگلوں اور میدانوں میں گشت فرماتے رہتے ہیں اور حضرت خضر علیہ السلام دریاؤں اور سمندروں کی سیر فرماتے رہتے ہیں اور یہ دونوں حضرات آخری زمانے میں وفات پائیں گے جب کہ قرآن مجید اٹھا لیا جائے گا۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے کہ ہم لوگ ایک جہاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو راستہ میں ایک آواز آئی کہ یا اللہ! تو مجھ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں بنادے جو امت مرحومہ اور مستجاب الدعوات ہے تو حضور علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا کہ اے انس! تم اس آواز کا پتا لگاؤ تو میں پہاڑ میں داخل ہوا، تو اچانک یہ نظر آیا کہ ایک آدمی نہایت سفید کپڑوں میں ملبوس لمبی داڑھی والا نظر آیا جب اس نے مجھے دیکھا تو پوچھا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہو؟ تو میں نے عرض کیا کہ جی ہاں تو انہوں نے فرمایا کہ تم جا کر حضور سے میرا سلام عرض کرو اور یہ کہہ دو کہ آپ کے بھائی الیاس ( علیہ السلام ) آپ سے ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ میں نے واپس آکر حضور سے سارا معاملہ عرض کیا تو آپ مجھ کو ہمراہ لے کر روانہ ہوئے اور جب آپ ان کے قریب پہنچ گئے تو وہ پیچھے ہٹ گیا۔ پھر دونوں صاحبان دیر تک گفتگو فرماتے رہے اور آسمان سے ایک دستر خوان اتر پڑا تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے بلا بھیجا اور میں نے دونوں حضرات کے ساتھ میں کھانا کھایا۔ جب ہم لوگ کھانے سے فارغ ہو چکے تو آسمان سے ایک بدلی آئی اور وہ حضرت الیاس علیہ السلام کو اٹھا کر آسمان کی طرف لے گئی اور میں ان کے سفید کپڑوں کو دیکھتا رہ گیا۔(تفسیر صاوی، ج ۵، ص ١٧٤٩ ، پ ٢٣ ، الصفت: ١٢٤ )

حضرت الیاس اور قرآن قرآن مجید میں حضرت الیاس علیہ السلام کا تذکرہ دو جگہ آیا ہے سورہ انعام میں اور سورۂ الصٰفّٰت میں۔ سورہ انعام میں تو صرف ان کو انبیا علیہم السلام کی فہرست میں شمار کیا ہے اور سورہ الصٰفّٰت میں آپ کی بعثت اور قوم کی ہدایت کے متعلق مختصر طور پر بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ سورہ انعام میں ہے:

وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ ؕ- وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَ ؕ -كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًا ؕ -وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ (پ ٧ الانعام: ٨٤ تا ٨٦)
ترجمہ کنز الایمان : اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو اور ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں نیکو کاروں کو اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو یہ سب ہمارے قرب کے لائق ہیں۔ اور اسمعیل اور سیع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی۔

اور سورة الصفت میں اس طرح ارشاد فرمایا کہ
وَ اِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَلَا تَتَّقُوْنَ اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّ تَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ اللّٰهَ رَبَّكُمْ وَ رَبَّ اٰبَآىٕكُمُ الْاَوَّلِیْنَ فَكَذَّبُوهُ فَإِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ سَلَامٌ عَلٰی إِلْيَاسِينَ لَنَا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ (پ ۲۳ ، الصفت: ۱۲۳ تا ۱۳۲)
ترجمہ کنز الایمان : اور بیشک الیاس پیغمبروں سے ہے۔ جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا کیا تم ڈرتے نہیں کیا بعل کو پوجتے ہو اور چھوڑتے ہو سب سے اچھا پیدا کرنے والے اللہ کو جو رب ہے تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادا کا پھر انہوں نے اسے جھٹلایا تو وہ ضرور پکڑے آئیں گے مگر اللہ کے چنے ہوئے بندے اور ہم نے پچھلوں میں اس کی ثنا باقی رکھی سلام ہو الیاس پر بیشک ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہے۔

حضرت الیاس علیہ السلام اور ان کی قوم کا واقعہ اگر چہ قرآن مجید میں بہت ہی مختصر مذکور ہے تا ہم اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ یہودیوں کی ذہنیت اس قدر مسخ ہوگئی تھی کہ کوئی ایسی برائی نہیں تھی جس کے کرنے پر یہ لوگ حریص نہ ہوں باوجودیکہ ان میں ہدایت کے لیے مسلسل انبیاے کرام تشریف لاتے رہے مگر پھر بھی بت پرستی، کواکب پرستی اور غیر اللہ کی عبادت ان لوگوں سے نہ چھوٹ سکی۔ پھر یہ لوگ اعلیٰ درجے کے جھوٹے، بد عہد اور رشوت خور بھی رہے اور اللہ تعالیٰ کے مقدس نبیوں کو ایذائیں دینا اور ان کو قتل کر دینا ان ظالموں کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔

بہر حال ان ظالموں کے واقعات سے جہاں ان لوگوں کی بدبختی و کجروی اور مجرمانہ شقاوت پر روشنی پڑتی ہے، وہیں ہم لوگوں کو یہ نصیحت و عبرت بھی حاصل ہوتی ہے کہ اب جب کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے تو ہمارے لیے بے حد ضروری ہے کہ خدا کے آخری پیغام یعنی اسلام پر مضبوطی سے قائم رہ کر یہودیوں کے ظالمانہ طریقوں کی مخالفت کریں اور کفار کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں اور مصیبتوں پر صبر کر کے خدا کے مقدس نبیوں کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں۔ واللہ تعالیٰ اعلم

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے