حروف مشبہ بفعل کا بیان
حروف مشبه به فعل : وہ حروف ہیں جو فعل سے مشابہت رکھتے ہیں اور جملہ اسمیہ پر داخل ہو کر مبتدا کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں ۔ یہ چھ حروف ہیں : إن . أن. كان . لكن ، ليت . لعل ۔ جیسے إن الله علیم ۔ کبھی ان حروف کے بعد ما کافہ آ جاتا ہے تو اس وقت یہ عمل نہیں کرتے اور فعل پر بھی داخل ہوتے ہیں ۔ جیسے قل انما يوحى إلى أنما الهكم إله واحد
فعل سے مشابہت : یہ حروف کئی طرح فعل سے مشابہت رکھتے ہیں ، مثلا : ( ۱ ) حروف کی تعداد میں فعل کے مشابہ ہیں کہ ان میں بھی کبھی تین حروف ہوتے ہیں ۔ جیسے ان • أنّ • لیت ۔ اور کبھی چار حروف ہوتے ہیں ۔ جیسے کانّ، لعلّ • اور کبھی پانچ حروف ہوتے ہیں ۔ جیسے لٰکن ۔ ( ۲ ) فعل کے ہم وزن ہوتے ہیں ۔ جیسے ان • أنّ بر وزن فِر فر ۔ اور کانّ • لعلّ بر وزن فعلن ۔ اور لکن بر وزن ضاربن ہے ۔ ( ۳ ) فعل کے ہم معنی ہوتے ہیں ۔ جیسے إن . أن ، حققت کی طرح تحقیق پر، کان شبهت کی طرح تشبیہ پر . لکن ، استدرکت کی طرح استدراک پر، ليت تمنیت کی طرح آرزو پر اور لعل ، ترجیت کی طرح توقع پر دلالت کرتا ہے ۔ ( ۴ ) فعل کی طرح مبنی بر فتح ہوتے ہیں ۔ إن ، أن : إِن جملہ کی ( بحیثیت جملہ ) تا کید کے لیے آ تا ہے اور انّ جملہ کو مفرد کی تاویل میں کر دیتا ہے ، لہذا جملہ کے مقام میں ان اور مفرد کے مقام میں ان آۓ گا ۔
مواضع إن : چودہ جگہ انّ ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ ہوتا ہے : ( ۱ ) ابتداے کلام میں ۔ جیسے ان الله على كل شيء قدیر ۔ ( ۲ ) قول کے بعد ۔ جیسے یقول انها بقرة ۔ ( ۳ ) موصول کے بعد ۔ جیسے ما رأيت الذي اِنه في المساجد ۔ ( ۴ ) جواب قسم میں ۔ جیسے و الله اِن زيدا قائم ۔ ( ۵ ) واو حالیہ کے بعد ۔ جیسے جد و إنك لمسرور ۔ ( ۲ ) ندا کے بعد ۔ جیسے یا بني إن الله اصطفى لكم الدین ۔ ( ۷ ) فعل ندا کے بعد ۔ جیسے ناديت زيدا اِن غلامك قد ذهب ۔ ( ۸ ) حتی ابتدائیہ کے بعد ۔ جیسے مرض سعيد حتى إنهم لا يرجونه ( ۹ ) حیث کے بعد ۔ جیسے اجلس حيث انك تخترم ۔ ( ١٠ ) إذ کے بعد ۔ جیسے جئتك إذ إن الشمس تطلع ۔ ( ۱۱ ) حرف استفتاح کے بعد ۔ جیسے الا إن أولياء الله لا خوف علیھم ۔ ( ۱۲ ) حرف تصدیق کے بعد ۔ جیسے نعم انه فاضل ۔ ( ۱۳ ) مبتدا اسم عین ہو اس کی خبر میں ۔ جیسے زھیر انہ کریم ۔ ( ۱۴ ) جب اس کی خبر پر لام تاکید ہو ۔ جیسے علمت انك لمجتهد ۔
مواضع ان : گیارہ جگہ ان ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ ہوتا ہے : ( ۱ ) فاعل کی جگہ ۔ جیسے يسرني أنك مجتهد ۔ ( ۲ ) نائب فاعل کی جگہ ۔ جیسے یرجی أنك تفوز ۔ ( ۳ ) مفعول کی جگہ ۔ جیسے عرفت أنك کریم ۔ ( ۴ ) مبتدا کی جگہ ۔ جیسے عندي أنك قائم ۔ ( ۵ ) خبر کی جگہ ۔ جیسے فخرك أنك مخلص ۔ ( ۲ ) مضاف الیہ کی جگہ ۔ جیسے فعلت هذا كراهة أنك قائم ۔ ( ۷ ) حرف جر کے بعد ۔ جیسے عجبت من أنه مهمل ۔ ( ۸ ) لو شرطیہ کے بعد ۔ جیسے لو أنك عندنا لأكرمتك ( ۹ ) لولا کے بعد ۔ جیسے لولا أنه حاضر لغاب زید ۔ ( ۱۰ ) إلا کے بعد ۔ جیسے زید غني إلا أنه شقي ـ ( 11 ) ما توقتیہ کے بعد :اجلس ما ان زیداً قائم ۔
فائدہ : ( ا ) ان کے اسم پر لام تاکید لاناصحیح ہے جب کہ خبر اس سے پہلے ہو ۔ جیسے ان عندك لخيرا عظیما ۔ اور اس کی خبر پر بھی لام تا کید لانا صحیح ہے جب کہ اسم اس سے پہلے ہو ۔ جیسے و إنك لعلى خلق عظیم ۔ ( ۲ ) کبھی انّ تخفیف کے سبب انْ ہو جا تا ہے ۔اس وقت اس کی خبر پر لام لانا ضروری ہوتا ہے جیسے ان زیدا لقائم ۔ اور اس کو عمل نہ دلانا بھی جائز ہوتا ہے ۔ جیسے و إن كل لما جميع لدينا محضرون ۔ اور اس کا فعل پر داخل ہونا بھی جائز ہوتا ہے ۔ جیسے و إن كنت من قبله لمن الغٰفلين . و إن نظنك لمن الكٰذبين – ( ۳ ) اسی طرح بھی انّ تخفیف کے سبب ان ہو جاتا ہے ۔ اس صورت میں وہ ضمیر شان مقدر میں عمل کرتا ہے اور وہی ضمیر اس کا اسم ہوتی ہے اور جملہ خبر واقع ہوتا ہے ۔ جیسے بلغني أن زيد قائم ۔۔۔ اور اگر جملہ فعلیہ ہو تو اس پر قد یاسین یا سوف یا حرف نفی لانا واجب ہے ۔ جیسے علم أن سيكون منكم مرضٰى . بلغني أن قد قام زيد وغیرہ ۔
کانّ : یہ تشبیہ کے لیے ہے ۔ جیسے کانّ زيدا اسد ـ یہ کاف تشبیہ اور ان مکسورہ سے مرکب ہے لیکن کاف کے پہلے آنے کی وجہ سے ہمزہ کا کسرہ فتحہ سے بدل گیا ۔ اس کی اصل ہے إن زيدا كالأسد کبھی اس میں بھی تخفیف ہو جاتی ہے تو اس وقت عمل نہیں کرتا ہے ۔ جیسے کان زيد أسد ۔ لكن : یہ استدراک یعنی کلام سابق سے پیدا ہونے والے وہم کو دور کرنے کے لیے ہے ۔ یہ معنی کے لحاظ سے دو متغائر کلام کے درمیان آتا ہے ۔ جیسے ما جاء في القوم لكن عمرا جاءه، غاب زيد لكن أخاه حاضر، اس سے پہلے واو لانا بھی جائز ہے ۔ جیسے قام زيد و لكن عمرا کبھی اس میں بھی تخفیف ہو جاتی ہے تو اس وقت عمل نہیں کرتا ہے ۔ جیسے ذهب زيد لكن بكر عندنا ۔
لیت : یمنی یعنی کسی چیز کے حصول کی آرزو پر دلالت کرتا ہے ، خواہ اس کا حصول ممکن ہو ۔ جیسے لیت زیدا حاضر یا ناممکن ہو ۔ جیسے ليت الشباب يعود ۔ لعل : یہ ترجی ، یعنی کسی چیز کے حصول کی توقع پر دلالت کرتا ہے اور اس کا تعلق صرف ممکن سے ہوتا ہے ۔ جسے لعلّ الله یرحمنا ۔