حبیب خدا کا نظارا کروں میں
حبیب خدا کا نظارا کروں میں
دل و جان ان پر نثارا کروں میں
ترا کفش پا یوں سنوارا کروں میں
کہ پلکوں سے اس کو بہارا کروں میں
تری رحمتیں عام ہیں پھر بھی پیارے
یہ صدمات فرقت سہارا کروں میں
مجھے اپنی رحمت سے تو اپنا کرلے
سوا تیرے سب سے کنارا کروں میں
میں کیوں غیر کی ٹھوکریں کھانے جاؤں
ترے در سے اپنا گزارہ کروں میں
ترے نام پر سر کو قربان کر کے
ترے سر سے صدقہ اتارا کروں میں
دم واپسی تک ترے گیت گاؤں
محمد محمد پکارا کروں میں
خدا خیر سے لائے وہ دن بھی نوریؔ
مدینے کی گلیاں بہارا کروں میں