تہذیب الفرائد اردو شرح شرح عقائد
شرح عقائد چھٹی صدی ہجری کی ابتدائی چند دہائیوں کے مشہور و معروف امام فاضل اجل نجم الملت والدین علامہ عمر نفی کی تصنیف کردہ کتاب "العقائد النسفی” کی ایک نہایت ہی جامع اور دقیق شرح ہے جسے اپنے وقت کے زبر دست متکلم اور حق علامہ سعد الدین تفتازانی نے اپنے شاہ کار قلم سے تصنیف فرمایا ہے جسے علم کلام میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس کتاب کی مقبولیت اور اہمیت کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ایک طویل عر بلا تخصیص مکتبہ فکر درس نظامیہ میں یکساں طور پر داخل نصاب ہے اس کتاب میں نہایت اختصار اور جامعیت کے ساتھ اسلامی معتقدات کو عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ فلاسفہ، معتزلہ، جبریہ، قدریہ، شیعہ، روافض، خوارج اور دیگر گمراہ اور باطل فرقوں کے اوہام و خیالات اور مذاہب کو دلائل کے ساتھ پیش کر کے نہایت مدلل انداز میں ان کار دو ابطال بھی کیا گیا ہے۔
یہ کتاب صرف خوابیدہ صلاحیتوں کو ہی بیدار نہیں کرتی بلکہ فکر و نظر میں جلا، مسائل کی تحقیق، قوت استدلال، خصم کے دلائل و براہین، کار دو ابطال اور نقض و معارضہ میں بے حد معاون اور مددگار ہے۔ آج سے دس سال پہلے جب اس کی تدریس کی ذمہ داری میرے سر آئی تو مجھے اس کی جامعیت کا صحیح طور پر اندازہ ہوا اور یہ محسوس ہوا کہ اس کی عبارتوں کا حل کرنا معانی اور مطالب، مالہ وماعلیہ کا مجھنانہایت دشوار کام ہے۔ چند سال پڑھانے کے بعد مجھے شوق نے اکسانا شروع کیا کہ میں سلیس اردو زبان میں اختصار کے ساتھ آسمان لب و لہجے میں اس کی شرح تحریر کروں لیکن اپنی بے بضاعتی اور علمی کم مائیگی کی وجہ سے اس کی جسارت نہیں کر سکا۔ پھر چند سال تک پڑھانے کے بعد شرح عقائد کی جگہ پر ملاحسن پڑھانے کا اتفاق ہوا اور پھر وہی شوق دوبارہ عود کر آیا لیکن اب کی بار میں نے ہمت نہیں ہاری جیسے جیسے پڑھاتا جاتا پڑھائے ہوئے اسباق اختصار کے ساتھ صفحہ قرطاس پر نوٹ کرتا جاتا یہاں تک کہ اللہ کے فضل اور اس کی تائید سے بتدریج اس کی شرح کر ڈالا جو توضیحات احسن“ کے نام سے زیور طبع سے مرصع ہو کر پہلی بار منظر عام پر آئی اور دھیرے دھیرے مدارس میں پھیلتی چلی گئی۔ اساتذہ اور طلبہ نے اسے نظر استحسان سے دیکھا اور کتاب کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کا پہلا ایڈیشن دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو گیا۔ اور سال گزشتہ اس کا دوسرا ایڈیشن چھپا اور اب اس کے تیسرے ایڈیشن کے چھپنے کی باری ہے۔ توضیحات احسن “ کی ہے پناہ مقبولیت کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں "شرح عقائد کی بھی شرح کا داعیہ پیدا ہوا اور اللہ تعالیٰ کی تائید اور فضل و کرم پر بھروسا کرتے ہوئے میں نے اس کام کا عزم سم کر لیا۔ اور سال گزشتہ اس سمت میں پیش قدمی شروع کر دی۔ فرائض کی انجام دہی کے بعد جو وقت بچتا اسے اس کام کے لیے وقف کر دیا، اور اپنی دانست میں فرصت کے لمحات کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونے دیا۔ اساتذہ کی دعائیں اور اللہ کا فضل ہر موڑ پر شامل حال رہا اور صرف چھ ماہ اور چند ایام کی قلیل مدت میں شرح عقائد کی مکمل شرح کر ڈالی ۔ اس کتاب کی افادیت کا صیح اندازہ تو اس وقت ہو گا جب یہ کتاب چھپ کر مدارس کے باوقار اساتذہ اور طلبہ کے ہاتھوں میں پہنچے گی۔ لیکن سر دست مجھے یہ کہنے میں کوئی ترد نہیں ہے کہ میں نے اپنی دانست میں اس کی عبارتوں کے حل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ دقیق سے دقیق مسائل کو بھی مثالوں کی روشنی میں آسان لب و لہجے میں طلبہ کے ذہن میں اتارنے کی پوری کوشش کی ہے اور اس مشکل کتاب کو آسان بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مجھے یہ کہنے میں عار نہیں ہے کہ اس کے لب و رخسار کو سنوار نے نوک و پلک درست کرنے اور اس کی زلف برہم کی مشاطگی میں کچھ کسر ضرور رہ گئی ہوگی۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی عبارتوں کی تشریح و توضیح میں بھی کمی رہ گئی ہو۔ لہذا اساتذہ، علما، فضلا اور احباب سے مخلصانہ گزارش ہے کہ گر یا کچھ ہو تواز را یافت پہلی فرصت میں کرم فرائی کی جائے اور ایسی جگہوں کی نشاندہی ضرور کی جائے تا کہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی صحیح کرلی جائے۔