مفعول به کی تعریف
مفعول بہ کی صورتیں
عام طور پر مفعول بہ کی پانچ صورتیں ہوتی ہیں: (۱) مفعول به اسم ظاہر ہو۔ جیسے يَطْلُبُ الْعَاقِلُ الْعِلْمَ۔(۲) ضمیر متصل ہو ۔ جیسے أكرمتك (۳) ضمیر منفصل ہو ۔ جیسے إِيَّاكَ نَعْبُدُ (۴) مصدر مؤول ہو۔ جیسے عَلِمُتُ أَنكَ مُجْتَهِد (۵) اسم مبہم ہو۔ خواہ اسم اشارہ ہو، یا اسم موصول ہو، یا اسم استفہام ہو۔ جیسے خُذْ هَذَا، أُكْرِمُ مَنْ يَجْتَهِدُ، مَنْ أَكْرَمُتَ؟
مفعول به کا عامل
مفعول بہ میں عمل کرنے والے عوامل چار ہیں: (۱) فعل متعدی ۔ جیسے ورث سُلَيْمَانُ دَاؤد – (۲) شبه فعل متعدی ۔ جیسے اِنَّ اللهَ بَالغ أَمْرَهُ (۳) فعل متعدی کا مصدر ۔ جیسے لَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ (۴) اسم فعل ۔ جیسے عَلَيْكُمُ انْفُسَكُمْ
مفعول کے احکام
(۱) مفعول یہ ہمیشہ منصوب ہوگا۔ لیکن اگر اس پر با زائدہ، یا من زائدہ آجائے تو لفظاً مجرور ہوگا ۔ جیسے طَرَحْتُ بِالْجَهْلِ مَا أَتَيْتُ مِنْ سُوءٍ (۲) اگر قرینہ پایا جائے تو اس کے عامل کو حذف کرنا جائز ہے۔ جیسے خَالِدًا کہنا اس شخص کے جواب میں جو پوچھے مَنُ دَعَوُتَ؟ (۳) چار جگہ اس کے عامل کو حذف کرنا واجب ہے۔ ان میں سے ایک سماعی ہے اور باقی تین قیاسی ہیں۔
(۱) سماعي : اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل عرب سے ایسا ہی بنا گیا ہے اور اس کے حذف کے واجب ہونے کی اور کوئی دلیل نہیں ہے۔ جیسے امْرَأَ وَ نَفْسَهُ کہ یہاں اترك فعل محذوف ہے۔ اور وَانْتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ، یہاں خَيْرًا سے پہلے اقْصِدُوا محذوف ہے ۔ اور اھلا و سھلا ۔ یہ اصل میں أَتَيْتَ أَهلا، اور وَطِيْتَ مَكَانًا سَهْلًا ہے۔
(۲) تحذیر : اس کا لغوی معنی ہے ڈرانا، اور جس چیز سے ڈرایا جائے اس کو مُحَذِّر منہ کہتے ہیں ۔ یہ مفعول اِتَّقِ – يا- بَعِدُ وغیرہ افعال کو مقدر ماننے سے آتا ہے یعنی اس میں اِتَّقِ – یا۔ بعد وغیرہ فعل مقدر عمل کرتا ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جلد از جلد بعد میں ذکر کی جانے والی شے سے مخاطب کو متنبہ کیا جائے۔ جیسے إِيَّاكَ وَالْأَسَدَ۔ اس کی اصل ہے: بَعْدُكَ وَ الْأَسَدَ يعنى بَعْدُ نَفْسَكَ مِنَ الْأَسَدِ وَالأَسَدَ مِنْ نَفْسِكَ۔ اور بھی محمد رمنہ کو دو بار لایا جاتا ہے۔ جیسے الجدار ، الجدار ۔ اس کی اصل ہے: اتَّقِ الْجِدَارَ۔ یہاں مُحَذَّر منہ کو دوبارلا ناصرف تاکید کے لیے ہوتا ہے۔ (۳) ما أَضْمِرَ عَامِلُهُ عَلى شريطة التفسير : اس سے مراد ہر وہ اسم منصوب ہے جس کے بعد کوئی فصل یا شبہ فعل ہو جو اس اسم میں عمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو لیکن اس اسم کی ضمیر ، یا اس کے متعلق میں عمل کرنے کی وجہ سے اس اسم میں عمل نہ کر رہا ہو۔ جیسے زَيْدًا ضَرَبَتُهُ . زَيْدًا أَنَا ضَارِبُهُ الْآنَ أَوْ غَدًا زَيْدًا ضَرَبْتُ غُلَامَهُ . زَيْدًا أَنَا ضَارِبٌ غُلَامَهُ الْآنَ أَوْ غَدًا
(۴) منادی : اس ذات کا اسم ہے جس کی توجہ حرف ندا کے ذریعہ طلب کی گئی ہو۔ خواہ حرف ندا لفظاً ہوجیسے ۔ یا اللہ ، یا نہ ہو۔ جیسے يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا حروف ندا پانچ ہیں: يَا أَيَا هَيَاء أَي . همزة مفتوحه –
اقسام منادی
منادی کی پانچ قسمیں ہیں: (۱) اگر منادی مفرد معرفہ، یا نکر معین ہوتو علامت رفع پر مبنی ہوگا۔ جیسے يَا زَيْدُ يَا رَجُلُ . يَا زَيْدَانِ . يَا زَيْدُونَ ۔ (۲) اگر منادی پر لام استغاثہ داخل ہو تو مجرور ہو گا۔ جیسے یا لزید۔ (۳) اگر منادی کے آخر میں الف استغاثہ آ جائے تو منادی مفتوح ہوگا ۔ جیسے یاریداہ ۔ (۴) اگر منادی مضاف ہو، یا مشابہ مضاف ہو، یا نکرہ غیر معینہ ہو تو منصوب ہوگا ۔ جیسے يَا عَبدَ اللَّهِ . يَا طَالِعَا جَبَلا اور جیسے کسی نابینا کا کہنا يَا رَجُلًا خُذُ بِيَدِي – (۵) اگر منادی معرف باللام ہو تو اس سے پہلے مذکر کے لیے ایھا اور مونث کے لیے ایتھا بڑھا دیا جائے گا۔ جیسے يَا أَيُّهَا الرَّجُلُ . يَا أَيَّتُهَا الْمَرْأَةُ
ترخیم منادی اس کا معنیٰ ہے منادی کے آخر سے بعض حروف کو تخفیف کے لیے حذف کر دینا۔ جیسے يَا حَارِث میں يَا حَارُ . يَا مَنْصُورُ میں يَا مَنصُ : يَاعُتُمَانُ میں يَا عُتُم اِس منادی میں حرف آخر پر ضمہ دینا ، یا حرکت اصلیہ کو باقی رکھنا دونوں جائز ہے۔
مندوب کسی مُردے کو وا – یا ۔ یا کے ساتھ پکار کر رونا ۔ جیسے وَا زَيْدَاهُ . يَازَيْدَاهُ۔ لفظ وا مندوب کے ساتھ خاص ہے اور لفظ یا منادی اور مندوب دونوں میں مشترک ہے ۔ مندوب معرب اور مبنی ہونے میں منادی کی طرح ہے۔