تعرف سیدنا فاروق اعظم


    خلیفہ دوم ، جانشین پیغمبر ، حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی کنیت ابو اور لقب فاروق اعظم ہے ۔ ایک روایت میں ہے آپ رضی اللہ تعالی عنہ 39 مر دوں کے بعد ، خاتم المرسلين ، رحمة للعلمین صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی دعا سے اعلان نبوت کے چھٹے سال ایمان لاۓ ، اسی لئے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو متيم الأربعین یعنی ” 40 کا عدد پورا کرنے والا کہتے ہیں ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کو بے حد خوشی ہوئی اور ان کو بہت بڑا سہارا مل گیا یہاں تک کہ حضور ، رحمت عالم ، جان عالم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر حرم محترم میں اعلانیہ نماز ادا فرمائی ۔ آپ رضی اللہ عنہ اسلامی جنگوں میں مجاہدانہ شان کے ساتھ شریک رہے اور تمام منصوبہ بندیوں میں شاہ خیرالانام ، رسول عالی مقام صلی اللہ تعلی علیہ والہ وسلم کے وزیر مشیر کی حیثیت سے وفادار درفیق کار رہے ۔ خلیفہ اول ، امیر المومنین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بعد حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ منتخب فرمایا ، آپ رضی اللہ تعال عنہ نے تخت خلافت پر رونق افروز رہ کر جانشینی مصطفے صلی اللہ تعلی علیہ والہ وسلم کی تمام تر وفا داریوں کو بہت ہی اچھے انداز سے سر انجام دیا ۔ بالآخر نماز فجر میں ایک بد بخت نے آپ رضی اللہ تعلی عنہ پر خنجر سے وار کیا اور آپ رضی اللہ تعلی عنہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوۓ تیسرے دن شرف شہادت سے سرفراز ہو گئے ۔ بوقت وفات آپ رضی اللہ تعلی عنہ کی عمر شریف 63 برس تھی ۔ حضرت سید نا صہیب رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور گوہر نایاب ، فیضان نبوت سے فیض یاب ، خلیفہ رسالت مآب حضرت سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ روضہ مبارکہ کے اندر امیر المومنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے پہلوۓ انور میں مدفون ہوۓ ، جو کہ سرکار انام صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے مبارک پہلو میں آرام فرما ہیں ۔

( الریاض النفر فی مناقب العشر تاج اص ۴۰۸،۲۸۵ ، ۴۱۸ ،

     میٹھی میٹھی اسلامی بھائیو! والدین ، بھائی بہن ، اولاد اور مال و جائیداد سے محبت انسان میں فطری طور پر ہوتی ہے ۔ اگر کوئی شخص اپنے اہل و عیال اور عزیز و اقارب کو بھلا کر ان کی محبت کو دل سے نکال بھی دے تو اس کے ایمان میں کوئی خرابی نہیں آئے گی اور اس کا ایمان بدستور قائم رہے گا ، کیونکہ ان افراد کو ماننا ، ان کی محبت کو دل میں بساۓ رکھنا ، ایمان کیلئے ضروری نہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ تعلی علیہ والہ وسلم پر ایمان لانا ، آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی تعظیم کرنا ، آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے محبت رکھنا ، ایمان کیلئے جزولاینفک ( یعنی وہ حصہ جو جدا نہ ہو سکے ہے ، لہذامو من کامل کے لیے ضروری ہے تمام رشتو ں اور کائنات کی ہر چیز سے محبوب ترین ، اسے سرکار صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی ذات ہو ۔


ہر شے سے محبوب :


بخاری شریف ، حدیث نمبر 6632 میں ہے : حضرت سید نا عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم سید المبتغين ، رحمة للعالمین صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے ۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا ۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی : لأنت أحب إلي من كل ش يء إلا من نفسی


یعنی
یارسول الله صلى الله تعالی علیہ والہ وسلم ! آپ مجھے میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں ۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا : لا والذی نفس بيده حتى أكون أحب إليك من نفسك

نہیں عمر ! اس رب کریم کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! ( تمہاری محبت اس وقت تک کامل نہیں ہو گی جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۔ “ سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی : والله لأنت أحب إلي من نفسی یعنی یارسول الله صلى الله تعالى عليه واله وسلم ! خداپاک کی قسم ! آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں ۔ یہ سن کر نبی پاک ، صاحب لولاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : الآن یا عمر
یعنی اے عمر ! اب تمہاری محبت کامل ہو گئی ۔ )

( بخاری ، کتاب الایمان والنذور ، باب کیف کانت یمین النبی ، ج ۴ ، ص ۲۸۳ ، حدیث : ۲۲۳۲ ۔ )


میٹھی میٹھی اسلامی بھائیو
! یہ حکم صرف سید نافاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے ہی نہیں بلکہ رہتی دنیا تک آنے والے ایک ایک مسلمان کیلئے ہے ، کیونکہ محبت مصطفے وہ چیز ہے ، جس کے بغیر ہمارا ایمان کبھی بھی کامل نہیں ہو سکتا


.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے