تخلیق آدم عليہ السلام
حضرت آدم علیہ السلام کی نہ ماں ہیں نہ باپ بلکہ اللہ تعالیٰ
نے ان کو مٹی سے بنایا ہے۔ چنانچہ روایت ہے کہ جب خداوند قدوس عز و جل نے آپ کو پیدا
کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت عزرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ زمین سے ایک مٹھی مٹی لائیں
۔ حکم خداوندی عز وجل کے مطابق حضرت عزرائیل علیہ السلام نے آسمان سے اتر کر زمین سے ایک مٹھی مٹی
اٹھائی تو پوری روئے زمین
کی اوپری پرت چھلکے کے مانند اتر کر آپ کی مٹھی میں آگئی۔ جس میں ساٹھ رنگوں اور مختلف کیفیتوں والی ٹیاں تھیں یعنی سفید
و سیاہ اور سرخ و زرد رنگوں والی اور نرم و سخت ، شیریں و تلخ نمکین و
پھیکی وغیرہ کیفیتوں والی ٹیاں شامل تھی۔ (تذکرة الانبياء، ص ٤٨)
پھر اس مٹی
کو مختلف پانیوں سے گوندھنے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ ایک مدت کے بعد یہ چپکنے والی
بن گئی۔ پھر ایک مدت تک یہ گوندھی گئی تو کیچڑ کی طرح بو دار گارا بن گئی۔ پھر یہ
خشک ہو کر کھنکھناتی اور بجتی ہوئی مٹی بن گئی۔ پھر اس مٹی سے حضرت آدم علیہ السلام کا پتلا بنا کر جنت کے دروازے پر رکھ دیا
گیا جس کو دیکھ دیکھ کر فرشتوں کی جماعت تعجب کرتی تھی۔ کیونکہ فرشتوں نے ایسی شکل
و صورت کی کوئی مخلوق کبھی دیکھی ہی نہیں
تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس پتلے میں روح کو داخل ہونے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ روح
داخل ہو کر جب آپ کے نتھنوں میں پہنچی تو آپ کو نیچ چھینک آئی اور جب روح زبان تک
پہنچ گئی تو آپ نے ” الحمد للہ” پڑھا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا "یرحمک اللہ "یعنی اللہ تعالیٰ تم پر رحمت فرمائے ۔اے ابو محمد ( آدم ) میں نے تم کو
اپنی حمد ہی کے لئے بنایا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ پورے بدن میں روح پہنچ گئی اور آپ
زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ (تفسیر خازن، ج ۱، ص ٤٣ ، پ ١ ، البقرة : ٣٠)
ترمذی اور
ابو داؤد میں یہ حدیث ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا پتلا جس مٹی سے بنایا گیا
چونکہ وہ مختلف رنگوں اور مختلف کیفیتوں کی مٹیوں کا مجموعہ تھی اسی لئے آپ کی
اولاد یعنی انسانوں میں مختلف رنگوں اور قسم قسم کے مزاجوں والے لوگ ہو گئے ۔تفسیر
صاوی، ج ۱، ص ٤٩ ، پ ١ البقرة : ٣٠)
حضرت آدم
علیہ السلام کی کنیت ابو محمد یا ابوالبشر اور آپ کا لقب ” خلیفہ اللہ”
ہے اور آپ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نبی
ہیں۔ آپ نے نو سو ساٹھ برس کی عمر پائی اور بوقت وفات آپ کی اولاد کی تعداد ایک
لاکھ ہو چکی تھی۔ جنہوں نے طرح طرح کی صنعتوں اور عمارتوں سے زمین کو آباد کیا۔ (تفسیر
صاوی، ج ۱، ص ٤٨ ، پ ١ البقرة : ٣٠)
قرآن مجید میں بار بار اس مضمون کا بیان کیا گیا
ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق مٹی سے ہوئی۔ چنانچہ سورہ آل عمران میں ارشاد
فرمایا کہ:
اِنَّ
مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ
لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ (پ ۳ ، ال
عمران : ٥٩)
ترجمہ کنز الایمان :
عیسی کی کہاوت اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے اسے مٹی سےبنایا پھر فرمایا ہو جا وہ
فورا ہو جاتا ہے۔
دوسری آیت
میں اس طرح فرمایا کہ : اِنَّا
خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ (پ ۲۳ ، الصافات: ۱۱)
ترجمہ کنز الایمان :
بیشک ہم نے ان کو چپکتی مٹی سے بنایا۔
کہیں یہ
فرمایا کہ : وَلَقَدْ خَلَقْنَا
الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُون (پ۔ ١٤ ، الحجر : ٢٦)
ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک ہم نے آدمی کو بہتی ہوئی مٹی سے بنایا جو اصل میں ایک سیاہ بودار
گارا تھی۔
حضرت حواء رضى الله تعالى عنہا
جب حضرت
آدم علیہ السلام کو خدا وند قدوس نے بہشت میں رہنے کا حکم دیا تو آپ جنت میں تنہائی
کی وجہ سے کچھ ملول ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نیند کا غلبہ فرمایا اور آپ گہری
نیند سو گئے تو نیند ہی کی حالت میں آپ کی بائیں پسلی سے اللہ تعالیٰ نے حضرت حواء
رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پیدا فرمادیا۔
جب آپ نیند
سے بیدار ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک نہایت ہی خوبصورت اور حسین و جمیل
عورت آپ کے پاس بیٹھی ہوئی ہے۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ تم کون ہو؟ اور کس لئے یہاں
آئی ہو؟ تو حضرت حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ میں آپ کی بیوی ہوں اور
اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے پیدا فرمایا ہے تا کہ آپ کو مجھ سے اُنس اور سکون قلب
حاصل ہو۔ اور مجھے آپ سے انسیت اور تسکین ملے اور ہم دونوں ایک دوسرے سے مل کر خوش
ر ہیں اور پیار و محبت کے ساتھ زندگی بسر کریں اور خداوند قدوس عز وجل کی نعمتوں
کا شکر ادا کرتے رہیں (تفسیر روح المعانی، ج ۱، ص ٣١٦ ، پ ١ ، البقرة : ٣٥)
قرآن مجید
میں چند مقامات پر اللہ تعالیٰ نے حضرت حواء کے بارے میں ارشاد فرمایا ، مثلاً !
وَخَلَقَ
مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً (پ۔۴۔ النساء : ١)
ترجمہ کنز الایمان:
اور اسی میں سے اس کا جوڑ ا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت پھیلا دیئے۔
درس ہدایت: حضرت آدم وحواء علیہما
السلام کی تخلیق کا واقعہ مضامین قرآن مجید
کے ان عجائبات میں سے ہے جس کے دامن میں بڑی بڑی عبرتوں اور نصیحتوں کے گوہر آبدار
کے انبار پوشیدہ ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ
نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا اور حضرت حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو
حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا فرمایا۔ قرآن کے اس
فرمان سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ خلاق عالم جل جلالہ نے انسانوں کو چار طریقوں
سے پیدا فرمایا ہے۔
اول: یہ کہ
مرد و عورت دونوں کے ملاپ سے ، جیسا کہ عام طور پر انسانوں کی پیدائش ہوتی ہے۔
چنانچہ قرآن مجید میں صاف صاف اعلان ہے کہ:
إِنَّا
خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ (پ ۲۹۔ الدهر ۲ ٢)
ترجمہ کنز الایمان:
بیشک ہم نے آدمی کو پیدا کیا ملی ہوئی منی سے۔
دوم: یہ کہ تنہا مرد سے ایک انسان پیدا ہو۔ اور وہ
حضرت حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت آدم علیہ السلام
کی بائیں پسلی سے پیدا فر ما دیا۔
سوم: یہ کہ تنہا ایک عورت سے ایک انسان پیدا ہو۔ اور
وہ حضرت عیسی علیہ السلام ہیں جو کہ پاک دامن کنواری بی بی مریم علیہا السلام کے شکم سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔
چہارم : یہ کہ بغیر مرد و عورت کے بھی ایک انسان کو خدا
وند قدوس عز وجل نے پیدا فرما دیا اور وہ انسان حضرت آدم علیہ السلام
ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مٹی سے بنا دیا۔
ان
واقعات سے مندرجہ ذیل اسباق کی طرف راہنمائی ہوتی ہے۔
(۱) خداوند قدوس ایسا قادر و قیوم اور خلاق ہے کہ
انسانوں کو کسی خاص ایک ہی طریقے سے پیدا فرمانے کا پابند نہیں ہے، بلکہ وہ ایسی عظیم
قدرت والا ہے کہ وہ جس طرح چاہے انسانوں کو پیدا فرمادے۔ چنانچہ مذکورہ بالا چار طریقوں
سے اس نے انسانوں کو پیدا فرمادیا۔ جو اس کی قدرت و حکمت اور اس کی عظیم الشان خلاقیت
کا نشان اعظم ہے۔
سبحان الله ! خداوند قدوس کی شانِ خالقیت کی عظمت کا کیا
کہنا ؟ جس خلاق عالم نے کرسی و عرش اور لوح و قلم اور زمین و آسمان کو کن فرما کر
موجود فر ما دیا اس کی قدرت کاملہ اور
حکمت بالغہ کے حضور خلقت انسانی کی بھلا حقیقت و حیثیت ہی کیا ہے۔ لیکن اس میں کوئی
شک نہیں کہ تخلیق انسان اس قادر مطلق کا وہ تخلیقی شاہکار ہے کہ کا ئنات عالم میں
اس کی کوئی مثال نہیں۔ کیونکہ وجود انسان عالم خلق کی تمام مخلوقات کے نمونوں کا ایک
جامع مرقع ہے۔
اللہ اکبر ! کیا خوب ارشاد فرمایا۔ مولائے کائنات حضرت علی
مرتضی رضی اللہ عنہ نے کہے۔
اتَحْسِبُ إِنَّكَ جِرمٌ صَغِيرٌ وَفِيْكَ انْطَوَى
الْعَالَمُ الْأَكْبَرُ
ترجمہ: اے انسان! کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ
تو ایک چھوٹا سا جسم ہے؟ حالانکہ تیری عظمت کا یہ حال ہے کہ تیرے اندر عالم اکبر سمٹا ہوا
ہے۔
(۲) ممکن تھا کہ کوئی مرد یہ خیال کرتا کہ اگر ہم مردوں
کی جماعت نہ ہوتی تو تنہا عورتوں سے کوئی انسان پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی طرح
ممکن تھا کہ عورتوں کو یہ گمان ہوتا کہ اگر ہم عورتیں نہ ہوتیں تو تنہا مردوں سے
کوئی انسان پیدا نہ ہوتا۔ اسی طرح ممکن تھا کہ عورت و مرد دونوں مل کر یہ ناز کرتے
کہ اگر ہم مردوں اور عورتوں کا وجود نہ ہوتا تو کوئی انسان پیدا نہیں ہو سکتا تھا،
تو اللہ تعالیٰ نے چاروں طریقوں سے انسانوں کو پیدا فرما کر عورتوں اور مردوں
دونوں کا منہ بند کر دیا کہ دیکھ لو، ہم ایسے قادر و قیوم ہیں کہ حضرت حواء علیہا
السلام کو تنہا مردیعنی حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا فر ما دیا۔ لہذا اے عور تو !
تم یہ گمان مت رکھو کہ اگر عورتیں نہ ہوتیں تو کوئی انسان پیدا نہ ہوتا ۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تنہا عورت کے شکم سے بغیر مرد کے پیدا فرما کر
مردوں کو تنبیہ فرمادی کہ اے مرد و ! تم یہ ناز نہ کرو کہ اگر تم نہ ہوتے تو
انسانوں کی پیدائش نہیں ہو سکتی تھی۔ دیکھ لو! ہم نے حضرت عیسی علیہ السلام کو
تنہا عورت کے شکم سے بغیر مرد کے پیدا فرما دیا۔ اور حضرت آدم علیہ السلام کو بغیر
مرد و عورت کے مٹی سے پیدا فرما کر عورتوں اور مردوں کا منہ بند فرمادیا کہ اے
عورتو! اور مردو! تم کبھی بھی اپنے دل میں خیال نہ لانا کہ اگر ہم دونوں نہ ہوتے
تو انسانوں کی جماعت پیدا نہیں ہو سکتی تھی ۔ دیکھ لو! حضرت آدم علیہ السلام کے نہ
باپ ہیں نہ ماں ، بلکہ ہم نے ان کو مٹی سے پیدا فرما دیا۔
سبحان اللہ ! سچ فرمایا اللہ جل جلالہ نے کہ:
اللَّهُ
خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (پ،۱۳۔١٣
، الرعد ۔۱۶)
ترجمہ کنز الایمان: اللہ ہر چیز کا بنانے والا ہے اور وہ اکیلا سب
پر غالب ہے وہ جس کو چاہے اور جیسے چاہے اور جب چاہے پیدا فرما دیتا ہے۔ اس کے
افعال اور اس کی قدرت کسی اسباب و علل ، اور کسی خاص طور طریقوں کی بندشوں کے
محتاج نہیں ہیں۔ وہ فَعّالٌ لِّمَا
يُرِيدُ (پ ٣ ۔۳۰ البروج ۔۱۶ ١٦) ہے۔
یعنی وہ
جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس کی شان يَفْعَلُ اللَّهُ
مَا يَشَاءُ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا یُرِیدُ ہے۔ یعنی جس چیز اور جس کام کا وہ ارادہ فرماتا ہے
اسکو کر ڈالتا ہے۔ نہ کوئی اسکی مشیت وارادہ میں دخل انداز ہو سکتا ہے، نہ کسی کو
اسکے کسی کام میں چون و چرا کی مجال ہو سکتی ۔ ہے۔ والله تعالى اعلم.