بزرگوں سے وابستگی قرآن کا حکم ہے

 قرآن مجید کلام ربانی ہے اور اس کا ہر ارشاد لازم الاتباع ہے ، اللہ و رسول کی بارگاہ میں کوئی بھی مقبولیت اور برگزیدگی قرآن مجید پر عمل کے بغیر کسی کو نہیں مل سکتی ۔ اس لیے ہر بندہ مومن پر لازم ہے کہ قرآن مجید سے اپنا ایمانی وروحانی تعلق باقی رکھے ، کثرت سے اس کی تلاوت کرے ، اس کے معانی و مفاہیم کو سمجھے اور اس کے احکام و فرامین پر عمل بھی کرتا رہے تو وہ دین و دنیا میں کامیاب و کامران رہے گا ۔ قرآن مجید ہماری شریعت کا پہلا بنیادی ماخذ اور سب سے معتبر حوالہ ہے ، قرآن میں اللہ تعالی کے بیان کردہ وعدوں اور وعیدوں میں کوئی ترمیم وتنسیخ نہیں ہوسکتی ، اس کی بشارتیں کسی قیمت پر رد نہیں ہوسکتی۔ 

بزرگوں سے وابستگی قرآن کا حکم ہے

       قرآن مجید میں احکام ظاہر بھی ہیں اور رموز باطن بھی ، محکم آیتیں بھی ہیں اور متشابہات بھی ۔ ہمیں حکم ہے کہ محکم پر عمل پیہم اور متشابہ پر یقین کریں ۔ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ شریعت کا علم نہ ہو تو احکام شرع پر عمل نہیں کیا جاسکتا ، اسلام نے ہمیں حکم دیا ہے کہ مکلف ہونے تک احکام شرع سے اتنی واقفیت ضرور حاصل کر لی جائے کہ عمل کرنے میں دشواری نہ ہو اور عبادت وریاضت میں نقص و عیب و فساد کو راہ نہ ملے ۔ اس لیے اللہ عزوجل کے تمام انعام یافتہ اور احسان یافتہ بندوں نے پہلے شریعت کا علم سیکھا ، پھر عبادتوں اور مجاہدوں میں مشغول ہوۓ اور اہل اللہ قرار پائے ۔ 

      یاد رکھیں ! ان اللہ والوں کے متعلق یہ سوچا نہیں جاسکتا کہ انھیں احکام شرع نہیں معلوم یا وہ مراد الہی و مرضی مولی کے خلاف اقدام کرتے ہیں یا ان کے معمولات میں ایسی چیزیں ہیں جو قرآن اور صاحب قرآن سے ان کارشتہ کمزور کر دیتی ہیں ۔ کیوں کہ قرآن سے سچی وابستگی اور اللہ ورسول کے مرضی میں خود کو فنا کیے بغیر کوئی اہل اللہ “ نہیں ہو سکتا ۔ اللہ کے نیک بندوں کے احوال زندگی کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ‘ ‘ فنائیت کے اعلی مقام پر فائز تھے اور ان کی زندگی میں اتباع رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا کافی نکھرا اور ستھرا تھا اور ان کی اولیاۓ کرام سے متعلق کوئی یہ سوچے کہ قرآنی منہج اور نبوی اصول کے بر خلاف وہ خود ساختہ معمولات کے پابند تھے اور ان کی عملی زندگی قرآن کی مراد ایسے معمولات کا پابند بنانا چاہتے تھے جو فیشن زدگی کے ذیل میں اس اور صاحب قرآن کی رضا کے خلاف گزرتی تھی یا وہ اپنے دین کو ہیں تو یہ الزام تراشی اور دشنام طرازی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔یہ نظریہ خود قرآنی منہج کی کھلی ہوئی خلاف ورزی ہے ۔ یہ دعوی بھی نہیں کیا جاسکتا کہ انھیں قرآن فہمی کا ملکہ نہیں تھا ۔ چند آیتیں ملاحظہ فرمائیں : قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

يأيها الذين امنوا اتقوا الله وكونوامع الصدقين – ( سورہ توبہ 9 ۔آیت : 119 )  

      اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرواور بچوں کے ساتھ ہو ۔ یعنی گناہ کے کام چھوڑ دو اور صادق الایمان اور مخلص بندوں کی جماعت میں رہو ۔ بندگان خدا کی یہی جماعت اللہ ورسول کے محبوبوں کا گروہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ کی دعا ہے :

 اللهم انى اسئلك حبك وحب من يحبك . ( سنن ترمذی ، ابواب الدعوات ، ص : 187 ، ج : 2 )  

   یعنی اے اللہ ! میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس کی محبت کا جو تجھ سے محبت کرتا ہے ۔

       مذکورہ آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اجتماع حجت ہے کیوں کہ صادقین کے ساتھ رہنے کا حکم ہوا تو اس سے ان کے قول کا قبول کرنا لازم آتا ہے ۔ کیوں کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی ان کے ساتھ رہے اور ان کی بات نہ مانے ۔اس آیہ کریمہ میں سچوں سے مراد صاحب تقوی ” اہل اللہ اور بزرگان دین ہیں ، اس کاعلم ایک اور آیت سے ہوتا ہے : 

     أولئك الذين صدقوا وأولئك هم المتقون ( سورہ بقرہ 2 ۔ آیت : 177 )

    اولیاء اللہ کسی بھی حال میں احکام الہی سے غافل نہیں رہتے اور نہ کبھی تقوی کا دامن ان کے ہاتھ سے چھوٹتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آیا :

     إن أولياؤه إلا المتقون ۔ ( سورہ انفال ۔34 ) 

    انھی بندگان خدا کے بارے میں یہ بھی فرمایا گیا : 

        إن الذين امنوا وعملوا الصلحت سيجعل لهم الرحمن ودا  ( سورہ مریم ۔96 )

       بے شک وہ جو ایمان لاۓ اور اچھے کام کیے عن قریب ان کے لیے رحمن محبت کر دے گا ۔ یعنی انھیں اپنا محبوب بندہ بنالے گا اور اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت کا شجر اگا دے گا جو ہر آن ان کی یادوں کو ترو تازہ رکھے گا اور ان کے اقوال و اعمال کے اتباع پر انھیں آمادہ بھی کرے گا ۔ اس حقیقت کو ایک دوسری جہت سے بھی دیکھ لیں : سورۂ فاتحہ میں اللہ عزوجل نے ایک دعا ارشاد فرمائی :

         اھدنا الصراط المستقيم صراط الذين انعمت عليهم . ( سورۂ فاتحہ 1 ۔آیت : 5،6 )

   ہم کو سیدھا راستہ چلا ، راستہ ان کا جن پر تو نے احسان کیا ۔ اب سوال ہوا کہ اللہ عزوجل کے انعام یافتہ اور احسان یافتہ بندے کون ہیں ؟ اس کا ذکر سورہ نسا میں یوں فرمایا : 

          ومن يطع الله والرسول فأولئك مع الذين انعم الله عليهم من النّبين والصديقين والشهداء والصلحين وحسن اولئك رفيقا ( سورہ نسا ۔ 69 )          اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیا اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور یہ کیاہی اچھے ساتھی ہیں ۔ 

      اس آیہ کریمہ میں صالحین سے مراد وہ بندگان خدا ہیں جو حق العباد اور حق اللہ دونوں ادا کریں اور ان کے احوال ظاہری و باطنی اچھے اور پاک ہوں ۔       مفسر قرآن علامہ سید محمد نعیم الدین مرادآبادی  علیہ الرحمہ نے سورہ فاتحہ کی مذکورہ آیہ کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :” جن امور پر بزرگان دین کا عمل رہا ہو وہ صراط مستقیم ہے 

    گویا قرآنی حکم ہے کہ بزرگوں اور اہل اللہ کے اعمال واشغال کو اپناؤ اور ان کے طریق بندگی پر چلو ، ان کا طرز زندگی قبول کرو ، اس میں دین و دنیا کی بھلائی ہے ۔ ہاں ! ان پر حرف گیری کی جسارت ہرگز نہ کرنا ۔ یہ کام وہی کر سکتا ہے جو قرآنی منہج کو سمجھنے میں غلطی کر رہا ہے اور اس بات کا دعوی دار ہے کہ وہ قرآن فہمی کا ملکہ رکھتا ہے ۔ یہ باطل فکر ہوسکتی ہے ، قرآنی سوچ ہر گز نہیں ۔

       اہل اللہ کی دوستی اور ان کی ہم نشینی اختیار کرنا اللہ عزوجل کی رضا والا کام ہے اور ان کا اتباع دارین کی سعادتوں اور بے پناہ کامیابیوں کی نوید ہے ۔ اس کے ساتھ یہ حکم بھی دیا گیا کہ جن لوگوں کے دل یاد الہی سے غافل ہیں اور جو نفسانی خواہشوں کے اسیر ہیں ان کی پیروی اور ہم نشینی سے خود کو بچو ، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : 

     ولا تطع من أغفلنا قلبة عن ذكرنا واتبع هويه وكان أمره فرطا ( سورہ کہف ۔28 ) 

     اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا ۔ 

      یعنی اتباع اس کا کرنا ہے جو یاد مولی میں گم رہتا ہے اور اپنی خواہش نفس کو کچل کر اللہ و رسول کی رضا والے کام کرتا ہے اور صبر و شکر اس کی پہچان ہوتی ہے ، صدق و صفا اس کی جمع پونچی ، تقوی اس کا لباس ، مخلوق خدا کی خدمت اس کا شعار اور کفایت و قناعت اس کا شیوہ زندگی ہوتی ہے ۔ یہی لوگ اہل اللہ ہے اور انھی کی محبت دارین میں کامیابی کی سند ہے اور ان سے وابستگی برگزیدگی کا ذریعہ ۔ 

       رسول اللہ ہم نے بھی ہمیں اہل اللہ سے محبت کرنے کا حکم دیا اور ان کی ہم نشینی اختیار کرنے والوں کو بشارت دی ، فرماتے ہیں :

      ” هم القوم لا يشقى بهم جليسهم . “ ی مسلم ، باب فضل مجالس الذکر ، ص : 344 ، ج : 2 ) 

      یہ ایسے نیک اور مقبول بندگان خدا ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا محروم اور شقی نہیں رہ سکتا ۔ 

      گویا بزرگان دین سے وابستگی قرآن وحدیث کی مراد اور اللہ و رسول کا حکم ہے۔

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے