انبیائے کرام کے وسیلے سے دعا مانگنا
جس طرح آئندہ آنے والے لوگوں کے وسیلے سے دعا مانگنا جائز ہے اسی طرح زندوں اور جو وصال فرما چکے ہیں ان کے وسیلے سے دعا مانگنا بھی جائز ہے ، جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہےکہ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت سید نا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے وسیلے سے بارش کی دعا کی اور اللہ عزوجل نے بارش نازل فرمائی ۔ واضح رہے کہ قرآن وسنت صحا بہ کرام علیہم الرضوان ، تابعین ، تبع تابعین ، اولیاۓ عظام بلکہ پوری امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ انبیائے کرام على نبيناء عليهم الصلوۃ والسلام اپنی قبور میں زندہ ہیں ۔اسی طرح تمام شہدائے کرام بھی اپنی اپنی قبور میں زندہ ہیں ، لہذا ان کے وسیلے سے دعامانگنا بالکل جائز ہے ۔
رسول اللہ نے وسیلے کی تلقین فرمائی :
ایک نابینا صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کو خود رسول الله صلى الله تعالی علیہ وسلم نے وسیلے کی تلقین فرمائی ۔ چنانچہ حضرت سید نا عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص رسول الله صل الله تعالى عليه وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا : أدع الله أن يعافيني يارسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم ! آپ دعا فر مادیجئے کہ اللہ عزوجل میری بینائی کو بحال فرمادے حضور نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : إن شئت أخرت لك وهو خير وإن شئت دعوت یعنی اگر تم چاہو میں تمہارے لیے دعا کوموخر کر دوں اور یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے دعا کر دیتا ہوں ۔ اس نے عرض کیا : حضور آپ دعا فرمادیجئے ۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور نبی کریم ، رؤوف رحیم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اسے اچھی طرح وضو کرنے کا حکم دیا اور اسے یہ دعا سکھائی کہ وہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں یہ دعا کرے : ‘ ‘ اللهم اني اسالك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة يا محمد إني توجهت بك إلى ربي حاجتي هذه لتقضى لي اللهم فشفعه في یعنی اے اللہ عزوجل ! میں تیری بارگاہ میں سوال کرتا ہوں اور تیری ذات پاک کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تیرے اس نبی محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے وسیلے سے جو نبی رحمت ہیں ، یارسول الله صلى اللہ تعالی علیہ وسلم ! میں نے اپنے رب عزوجل کی بارگاہ میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے وسیلے سے تو جہ کی ہےتا کہ میری حاجت پوری ہو جاۓ ، اے اللہ عزوجل ! تو میری حاجت کو پورا فرمادے ۔
عہد فاروقی میں قبر رسول پر صحابی کی فریاد :
امیرالمؤمنین حضرت سید ناعمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد خلافت میں قحط سالی کے وقت ایک صحابی نے رسول الله صلى الله تعالی علیہ وسلم کے مزار پر انوار پر جا کر توسل کیا ۔ چنانچہ حضرت سید نا ما لک دار رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے روایت ہے جو کہ امیر المؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں کھانے کے خازن تھے ، فرماتے ہیں کہ جب سیدنافاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں قحط آیا تو ایک صحابی رسول حضرت سید نا بلال بن حارث مزنی علیہ رحمۃ اللہ القوی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی قبر انور پر حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے : یا رسول الله إنتشق لأمتك فإنهم قد هلكوا یعنی يارسول الله صلى اللہ تعالی علیہ وسلم اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے کیونکہ وہ ہلاک ہور ہے ہیں ۔ ‘ ‘ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو خواب میں حضور نبی کریم ، رؤوف رحیم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : ائت عمر فاقرئه السّلام وأخبره أنكم مستقيمون وقل له علیک الکیس علیک الکیس یعنی عمر کے پاس جاؤ اور انہیں میرا سلام کہ دواور انہیں یہ خبر دے دو کہ عنقریب تم پر بارش نازل ہونے والی ہے اور اس سے یہ بھی کہہ دو کہ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے تم پر سوجھ بوجھ لا زم ہے ۔ آپ سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ان کو تمام تفصیل سے آگاہ کیا تو سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ یہ سن کر آبدیدہ ہو گئے اور زاروقطار رونے لگے اور عرض کرنے لگے : یارب لا آلوالًا ماعجزت عنہ یعنی اے اللہ عزوجل ! میں صرف وہی کام ترک کرتا ہوں جس سے میں عاجز ہوتا ہوں ۔
بعد وصال رسول اللہ صلہ اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا :
حضرت سیدنا ابوامامہ بن سہل بن حنیف رحمة الله تعالی علیہ اپنے چچا حضرت سید نا عثمان بن حنیف رضی الله تعالى عنه سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنے کسی کام کے سلسلے میں امیر المؤمنین حضرت سید نا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جاتا رہتا تھا ، لیکن آپ اس کی طرف توجہ نہیں فرماتے تھے اور نہ ہی اس کے کام میں غور کرتے تھے ، اس نے حضرت سید نا عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ سے ملاقات کی اور سارا معاملہ بیان کر دیا ۔ آپ نے اس سے فرمایا : تم اچھی طرح وضوکرو ، پھر مسجد میں جا کر دورکعت نماز ادا کرو ، پھر یہ دعا کرو کہ اے اللہ عزوجل ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ہمارے نبی محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نبی رحمت کے وسیلے سے ، اے محمد ! میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا ہوں تا کہ میری یہ حاجت پوری ہو جائے اور تم اپنی حاجت کا ذکر کرو ۔ پھر سید نا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں جاؤ ، میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گا ۔
پس وہ شخص چلا گیا اور حضرت سید نا عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ کے بتاۓ ہوۓ طریقے پر عمل کیا ، پھر حضرت سید نا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گیا تو در بان آیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر سید نا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لے گیا ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی حاجت کو پورا کر دیا ، پر فرمایا : تم نے اب تک اپنی حاجت کیوں نہ بیان کی ؟ اب جب بھی تمہیں کوئی کام ہوتو اس کا ذکر کیا کرو ۔ اس کے بعد وہ شخص وہاں سے چلا گیا اور اس کی ملاقات حضرت سید نا عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوئی ، اس نے کہا : اللہ عزوجل آپ کو نیک جزا دے ، سید نا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ میری طرف غور نہیں فرماتے تھے ، آپ نے ان سے سفارش کی حضرت سید نا عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : اللہ عزوجل کی قسم ! میں نے ان سے تمہارے بارے میں کوئی بات نہیں کی ۔ میں ایک بار رسول الله صلى اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس حاضر تھا جب آپ کے پاس ایک نابینا صحابی آۓ اور اپنی بینائی کی شکایت کی تو سرکار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے انہیں صبر کا فرمایا لیکن انہوں نے دعا کے لیے عرض کی ، پس رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے انہیں یوں ہی دعا تلقین فرمائی ، اللہ عزوجل کی قسم ! ابھی ہم الگ نہیں ہوئے تھے کہ وہ نابینا صحابی ایسے ہو گئے جیسے وہ نابینا تھے ہی نہیں ۔