اللہ رزاق ہے وہ بندوں کا امتحان بھی لیتا ہے

از: محمد ابوالبرکات مصباحی، پورنوی البرکات، علی گڑھ 

تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے جس نے ہمیں عدم سے وجود بخشا، بے جان سے جاندار بنایا، اس نے ہماری زندگی کے لیے انواع و اقسام کی چیزیں مہیا فرمائیں تاکہ ہم ان کے ذریعے دنیاوی زندگی بآسانی گزار سکیں اور جس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا فرمایا ہے اس مقصد پر کھرا اتر سکیں۔

ہمارا مقصد تخلیق کیا ہے؟اللہ تعالیٰ سورہ:الذّاریات،آیت:56میں ارشاد فرماتا ہے:

  ترجمہ:اور میں نے جن اور آدمی اسی لیے بنائے کہ میری عبادت کریں۔(کنزالعرفان)

  جب اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ میں نے انسان اور جناتوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے تو عبادت کے لیے انسان کا زندہ رہنا ضروری ہے اور زندہ رہنے کے لیے غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفاتوں میں سے ایک صفت ”رزاق“ بھی ہے جس کا معنیٰ رزق دینے والا ہے، اللہ تعالیٰ انسان کو پیدا فرمانے سے پہلے ہی ماں کے پیٹ میں چار چیزیں لکھ دیتا ہے۔

اللہ رزاق ہے وہ بندوں کا امتحان بھی لیتا ہے


https://archive.org/download/20231212_20231212_1712/%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81%20%D8%B1%D8%B2%D8%A7%D9%82%20%DB%81%DB%92%20%D9%88%DB%81%20%D8%A8%D9%86%D8%AF%D9%88%DA%BA%20%DA%A9%D8%A7%20%D8%A7%D9%85%D8%AA%D8%AD%D8%A7%D9%86%20%D8%A8%DA%BE%DB%8C%20%D9%84%DB%8C%D8%AA%D8%A7%20%DB%81%DB%92.pdf

حدیث شریف کا مفہوم ہے: جب بچہ ماں کے پیٹ میں سا رے مراحل طے کر چکا ہوتاہے تو فرشتہ اللہ کے حکم سے چار چیزیں لکھ دیتا ہے:عمل،رزق، عمر اوریہ کہ وہ نیک بخت ہوگا یا بد بخت۔(صحیح بخاری،حدیث:3208) 

  اللہ رب العزت نے رزق کو اپنے ذمہ کرم پرلیاہے، اللہ کے رزق میں اتنی وسعت ہے جس کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا، وہ اپنی ہر مخلوق کو رزق دیتا ہے وہ چاہے چھوٹی ہو یا بڑی، مرد ہو یا عورت، شقی ہو یا سعید، نافرمان ہو یا فرماں بردار، کافر ہو یا مسلم غرض کہ اللہ اپنی تمام مخلوق کو اس کے حصے کا رزق پہنچاتا ہے یہاں تک کہ چیونٹیوں کو اس کے بلوں میں رزق پہنچاتا ہے اور مچھلیوں کو سمندروں کی تہوں میں۔ اللہ عزوجل رزاق ہے وہ اپنے بندوں کو ضرور رزق دیتا ہے ساتھ ہی اپنے بندوں کا امتحان بھی لیتا ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم رزق حاصل کرنے کے راستے میں صبر سے کام لیں اور اسی پر کامل بھروسا کریں۔

اللہ تعالیٰ سورہ الطلاق،آیت: 03 میں فرماتا ہے: اور(اللہ) اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو،اور جو اللہ پربھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔(کنزالعرفان)

لہٰذا معلوم ہواکہ جس کے حصے کا جتنا رزق متعین ہے وہ اسے پہنچ کر ہی رہے گا، کبھی کبھی تو انسان اپنی سکت سے زیادہ کوششیں کر نے لگتا ہے،حرام و حلال کی پرواہ کیے بغیر خوب ہاتھ پیر مارتاہے،حد تو یہ کہ چوری،ڈکیتی،لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی،لوٹ کھسوٹ پربھی اتر آتا ہے،اور اللہ کی نافرمانی کرکے اپنی دنیا و آخرت خراب کر بیٹھتا ہے،لیکن انھیں ملتا ا تنا ہی ہے جتنا اللہ نے ان کے نصیب میں لکھ دیا ہے۔ 

نبی دوجہاں ﷺ کافرمان عالی شان ہے:بندے کورزق ایسے تلاش کرتا ہے جیسے بندے کی موت اس کو تلاش کرتی ہے(مسند ا لبزار،حدیث:4099)

اللہ تعالیٰ سورہ: الذاریٰت، آیت: 58 میں فرماتا ہے:

ترجمہ:بے شک اللہ ہی بڑا رزق دینے والا قوت والا قدرت والا ہے۔(کنزالعرفان)

اس کی ذات والا صفات ایسی ہے کہ ہر کس و نا کس کو روزی دیتا ہے۔وہ قوی ہے اپنے بندوں تک رزق پہنچانے میں اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی سب کو وہی عطا فرماتا ہے وہی سب کا پالنہار ہے۔

اللہ عزوجل سورہ:آل عمران،آیت:37میں فرماتا ہے:

ترجمہ: بے شک اللہ جسے چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے۔(کنزالعرفان)

اللہ کی رزاقیت ایسی ہے کہ جو اس کا نافرمان ہے، روز و شب ہمہ وقت اس کی نافرمانیوں میں لگا رہتا ہے، اس کواپنا معبود تسلیم  نہیں کرتا، اس کی عبادت نہیں کرتا،اس کو برا بھلا کہتا ہے،لیکن رب کریم کی شان کریمی تو دیکھو وہ اسے بھی محروم نہیں رکھتا،بلکہ اس کی شان رزاقیت میں اتنی وسعت ہے جس سے تمام مخلوق ہمیشہ سیراب ہوتی رہتی ہیں۔ 

اللہ تعالیٰ کی جملہ مخلوقات اپنے رب کی عطا سے خوش ہو کر زندگی بسر کر رہی ہیں سواے انسانوں کے کہ اللہ کی اَن گنت عطاؤں کے باوجود وہ نا خوش ہیں،ہمیشہ اپنی تنگ دستی و بدحالی کا رونا روتے ہیں، اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر کے بجاے، ہمہ وقت ناشکری ہی میں لگے رہتے ہیں۔

  حالاں کہ رب تبارک و تعالیٰ سورہ: ابراہیم،آیت:07 میں فرماتا ہے:

ترجمہ:اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمھیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کروگے تو میراعذاب سخت ہے۔(کنزالعرفان)

انسان کتنا بڑا ناشکرا ہے اس کا اندازہ اس آیت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں پروردگار عالم ارشاد فرما رہا ہے۔

  ترجمہ: بے شک انسان ضرور اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔(سورہ:العٰدیٰت،آیت:06)

انسان کے بالمقابل دوسری تمام مخلوقات کو دیکھا جائے تو وہ اللہ کی عطا پر بہت خوش نظر آتے ہیں، مثال کے طور پر پرندوں ہی کو دیکھ لیں وہ صبح اٹھتے ہیں اور اٹھتے ہی اللہ کی حمد و ثنا میں لگ جاتے ہیں، اس کے بعد وہ اپنی روزی کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں، پھر جب وہ رات میں اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹتے ہیں توشکم سیرہوکر خوشی و خرم لوٹتے ہیں ان کے لیے کوئی جگہ متعین بھی نہیں ہوتی کہ انھیں وہاں سے رزق ملے گی یا یہاں سے، لیکن اللہ نے ان کے نصیب میں جو متعین کیا تھا وہ اسے پورا کا پورا ملا اور ملتا رہے گا۔

رہی بات انسانوں کی تو وہ اتنے حریص ہوچکے ہیں کہ ہمیشہ مزید ہی کی تلاش میں رہتے ہیں، دوسری مخلوق کی بہ نسبت اللہ کی عطائیں ان پر زیادہ ہیں اور ہو بھی کیوں نہ کہ اللہ نے انھیں اشرف المخلوقات بنایا ہے، انھیں اللہ نے عقل و فہم سے نوازا ہے، ان کی  روزی کے لیے جگہیں متعین کر دی ہیں کہ تمہیں یہاں سے رزق ملے گا یا وہاں سے ملے گا لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ پریشان رہتے ہیں اور ناشکری کرتے ہیں (الا ماشاء اللہ) 

انسان کو اللہ پر کامل بھروسہ کر کے ساری چیزیں اسی کی مشیت پر چھوڑ دینی چاہیے کیوں کہ اللہ اپنے بندے کے لیے جو بھی کرتا ہے بہتر ہی کرتا ہے، وہ تواپنی مخلوق سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت فرماتا ہے۔

آج ہماری زبوں حالی اور در بدر کی ٹھوکریں کھا نے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اللہ کی نعمت سے نا امید اور صبر و شکر سے کوسوں دور ہو گئے ہیں حالاں کہ خود پروردگار عالم سورہ:الزمر،آیت:53میں ارشاد فرماتاہے:

ترجمہ: (اللہ کی رحمت میں بہت وسعت ہے لہٰذا) اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔(کنزالعرفان)

جس دن سے ہمارا رشتہ اللہ سے مضبوط ہو جائے گا اور اپنی ساری چیزوں کا مداوا اللہ کو ماننے لگیں گے، اپنا سارا دکھ درد اسی کے سامنے بیان کریں گے،اسی دن سے کامیابی ہماری ہمرکاب ہوگی۔

یقین رکھیں!جو رزق ہمارے نصیب میں ہے وہ چل کر آے گا اور جو نصیب میں نہیں وہ آ کر بھی چلا جائے گا،لہٰذا ہمیں راضی برضا ے الٰہی میں ہی بھلائی ہے۔

.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے