اعتکاف میں مسجد سے باہر نکلنے کی صورتیں
مسجد سے باہر نکلنے کا ایک جواز رفع حاجت ہے اگر مسجد کے ساتھ کوئی رفع حاجت کی جگہ ہو تو وہاں تک جاسکتا ہے اگر مسجد سے بیت الخلا پاخانہ گھر باہر ہوتو اعتکاف کرنے والا وہاں تک جاسکتا ہے اگر مسجد کے ساتھ رفع حاجت کا انتظام نہیں تو مسجد سے قریب رفع حاجت کے لئے اپنے گھر میں بھی جاسکتا ہے ۔ اگر بیت الخلا عام ہوتو خالی ہونے تک انتظار میں ٹھہرنا جائز ہے لیکن ضرورت سے فارغ ہونے کے بعد ٹھہرنا جائز نہیں ۔اگر جان بوجھ کر ٹھہر جاۓ تو اعتکاف ٹوٹ جاۓ گا ۔ بیت الخلاء جاتے یا واپس آتے وقت راستہ میں یا گھر میں سلام کا جواب دینا یا مختصر بات چیت کر لینا جائز ہے سلام کہنا بھی درست ہے اس کے علاوہ دنیاوی گفتگو کرنا درست نہیں ۔ بیت الخلاء جاتے یا آتے وقت تیز چلنا ضروری نہیں ضرورت کے مطابق آہستہ چلنا بھی درست ہے ۔
قضائے حاجت کو جاتے وقت کسی شخص کے ٹھہرانے سے نہ ٹھہرنا چاہئے بلکہ چلتے چلتے اسے بتا دینا چاہئے کہ میں اعتکاف میں ہوں اس لئے نہیں ٹھہر سکتا اگر کسی کے ٹھہرانے سے ٹھہر گیا اور باتیں کرنے لگا اور حال احوال پوچھنے لگا تو اعتکاف ٹوٹ جاۓ گا ۔
اعتکاف کرنے والے کے لئے غسل کے احکام
اعتکاف میں شوقیہ غسل کرنے کی اجازت نہیں یعنی جب انسان کا دل چاہتا ہے نہا لیتا ہے اس طرح اعتکاف میں جائز نہیں ۔خصوصا گرمیوں میں لوگ دن میں دو تین مرتبہ گرمی کی شدت کو دور کرنے کے لئے اکثر نہاتے ہیں تو اعتکاف میں اس طرح کا غسل کرنا جائز نہیں ۔ اعتکاف والوں کو احتلام کی صورت میں غسل کرنا ضروری ہے اور غسل کے لئے مسجد سے باہر جانا جائز ہے مگر یاد رہے کہ احتلام ہونے سے اعتکاف میں کوئی فرق نہیں آتا اس صورت میں چاہئے کہ پہلے وضو یا تیمم کرے اس کے بعد غسل کا انتظام کرے ۔تیمم کے لئے مسجد کی دیوار یا صحن استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ سردیوں کے موسم میں اگر احتلام ہو جاۓ اور ٹھنڈا پانی سے غسل کرنے سے تکلیف یا کوئی مرض لاحق ہونے کا خطرہ ہوتو اعتکاف کرنے والے تیمم کر کے مسجد میں رہے اور اپنے گھر اطلاع کر دے تا کہ پانی گرم ہو جاۓ اور مسجد کے غسل خانے میں پانی منگوا کر نہانے یا گھر پر جا کر غسل کرلے ۔ احتلام کے ضروری غسل کے علاوہ گرمی کی شدت کے سبب جسمانی تلخی اور بے چینی کو دور کرنے کے لئے غسل کرنا جائز ہے یا جسم پر میل کچیل بہت زیادہ ہو جاۓ اور جسم سے بو آنے لگے تو اس صورت میں بھی نہانا دھونا درست ہے ۔ اعتکاف میں جمعہ کے غسل کے لئے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں کیونکہ حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علی علیہ وسلم نے ہر سال اعتکاف فرمایا اور ہر اعتکاف میں جمعہ آیا مگر کسی روایت سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے غسل فرمایا ہو اور اعتکاف سے جمعہ کے غسل کے لئے باہر تشریف لے گئے ہوں البتہ مسجد میں رہ کر مسجد کے ملحقہ غسل خانے میں غسل کرے تو درست ہے کیونکہ جمعہ کے دن وضو کرناسنون ہے۔
اعتکاف کرنے والوں کے لئے احکام وضو
اعتکاف کرنے والے کو مسجد کے ساتھ والی جگہ پر وضو کرنا چاہئے یعنی مسجد میں وضو کرنے کی ایسی جگہ موجود ہے کہ اعتکاف کرنے والا خود تو مسجد میں رہے لیکن وضو کا پانی مسجد سے باہر گرے تو وضو کے لئے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں ۔ بعض مسجدوں میں اعتکاف کرنے والوں کے لئے الگ پانی کی ٹونٹیاں اس طرح لگای جاتی ہیں کہ اعتکاف کرنے والا خود مسجد میں بیٹھتا ہے لیکن ٹونٹی کا پانی مسجد سے باہر گرتا ہے ۔ اگر مسجد میں ایسا انتظام نہیں ہے تو کسی غیر معتکلف سے لوٹے میں پانی منگوا کر مسجد کے کنارے پر اس طرح وضو کر کے پانی مسجد سے باہر گرے لیکن اگر کسی مسجد میں ایسی صورت ممکن نہ ہوتو وضو کے لئے مسجد سے باہر وضو خانے یا وضوخانہ نہ ہوتو کسی اور قریبی جگہ جانا جائز ہے اور یہ حکم ہرقسم کے وضو کا ہے خواہ وہ فرض نماز کے لئے کیا جارہا ہو یا نفلی عبادتوں کے لئے جن صورتوں میں اعتکاف کرنے والوں کے لئے وضو کے لئے باہر نکلنا جائز ہے ان میں وضو کے ساتھ مسواک کرنا دانت مانجھنا صابن لگانا تولیہ سے اعضاء خشک کرنا بھی جائز ہے لیکن وضو کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی باہر ٹھہرنا جائز نہیں اور نہ راستے میں رکھنا جائز ہے ۔
اعتکاف کرنے والوں کے لئے نماز جمعہ
بہتر یہ ہے کہ اعتکاف جامع مسجد میں کیا جاۓ جہاں نماز جمعہ ہوتی ہو تا کہ نماز جمعہ کے لئے باہر نہ جانا پڑے ۔ اگر اعتکاف کرنے والا ایسی مسجد میں اعتکاف کے لئے بیٹھا ہو جہاں نماز جمعہ نہ ہوتی ہوتو قریبی جامع مسجد میں جا کر نماز جمعہ پڑھنے کی اجازت ہے لیکن بہت زیادہ پہلے جانے کی اجازت نہیں ۔ جمعہ کی اذان اور خطبہ سے صرف اتنا پہلے جاۓ کہ فرض سے پہلے سنت نماز میں ادا کر سکے ۔ اگر کوئی شخص جامع مسجد میں جمعہ پڑھنے کے لئے گیا اور وہاں جا کر باقی ماندہ اعتکاف اسی مسجد میں پورا کرنے کے لئے وہیں ٹھہر گیا تو اعتکاف ہوجائے گا مگر ایسا کرنا مکروہ ہے ۔ فتاوی عالمگیری )
ایک مسجد سے دوسری مسجد میں منتقل ہونا
اعتکاف کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ اس نے جس مسجد میں اعتکاف شروع کیا ہے اس میں پورا کرے لیکن اگر کسی کو ایسی شدید مجبوری پیش آ جاۓ کہ وہاں اعتکاف پورا کرنا ممکن نہیں مثلا وہ مسجد میں منہدم ہو جائے یا کوئی شخص زبردستی وہاں سے نکال دے یا وہاں رہنے میں جان و مال کا قوی خطرہ ہوتو دوسری مسجد میں منتقل ہوکر اعتکاف پورا کرنا جائز ہے اور اس غرض کے لئے باہر نکلنے سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا بشرطیکہ وہاں سے نکلنے کے بعد راستے میں کہیں نہ ٹھہرے بلکہ سیدھا دوسری مسجد میں چلا جاۓ ۔ . فتح القدیر
مفسدات اعتکاف
وہ کام جن سے اعتکاف ختم ہو جاتا ہے انہیں مفسدات اعتکاف کہتے ہیں۔اعتکاف کی حالت میں مباشرت کرنا حرام ہے ۔ اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے ۔ ولا تباشروهن وانتم عكفون في المسجد تلک حدود الله فلا تقربوها كذلك يبين الله اياته للنّاس لعلهم يتقون ۔ ترجمه : کنزالایمان ، پ ۲ ع ۷ ]
اور عورتوں کو ہاتھ نہ لگاؤ جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو یہ اللہ کی حد میں ہیں ان کے پاس نہ جاؤ اللہ یوں ہی بیان کرتا ہے لوگوں سے اپنی آیتیں کہ کہیں انہیں پر ہیز گاری ملے ۔ [ بقره ، آیت : ۱۸۷ ]
اعتکاف کی حالت میں کسی اعتکاف کرنے والے کو اپنی بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت نہیں اگر کوئی اعتکاف کرنے والا مسجد سے نکل کر اپنے گھر جا کر اپنی بیوی سے مباشرت کرے یا اس سے شہوت انگیز حرکات کرے تو اس طرح اس کا اعتکاف ٹوٹ جاۓ گا ۔ اللہ تبارک وتعالی نے سختی سے منع کر دیا ہے کہ اس طرح بالکل نہ کریں کیونکہ ایسا کرنا تقوی اور پرہیز گاری کے بالکل خلاف ہے کیونکہ اعتکاف کا مقصد ہی دنیا داری کے کاموں سے الگ ہو کر یاد الہی میں مشغول رہنا ہے ۔
قضا واجب ہوگی
اعتکاف میں بیٹھا ہوا مسلمان اگر مرتد ہو جاۓ [ نعوذ باللہ ] تو اس کا اعتکاف باطل ہو جاۓ گا پھر اگر دوبارہ اسلام لے آۓ تو اس کی قضا واجب ہوگی ۔
نشہ آور چیز کا استعمال
اعتکاف میں بیٹھ کر نشہ آور چیز استعمال کرنے سے اعتکاف فاسد ہو جاۓ گا ۔ نشہ تو ویسے ہی حرام ہے پھر اعتکاف میں اس کا استعمال کرنا بدرجہ اولی حرام ہے لہذا گر کوئی نشہ کا عادی تو اسے یہ چیزیں استعمال نہیں کرنی چاہیے بلکہ اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینا چاہیے
جنون اور بیہوشی
اگر کسی اعتکاف کرنے والے پر جنون اور بیہوشی طاری ہو جاۓ اور وہ مسلسل رہے تو اس صورت میں اعتکاف فاسد ہو جاۓ گا ۔
حیض اور نفاس
اگر اعتکاف کرنے والی عورت حیض یا نفاس میں مبتلا ہو جاۓ تو اعتکاف فاسد ہو جاۓ گا ۔
روزے کے ٹوٹنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے
اعتکاف کے لئے چونکہ روزہ شرط ہے اس لئے روزہ توڑ دینے سے اعتکاف بھی ٹوٹ جاتا ہے ۔ یہ روزہ خواہ کسی عذر سے توڑا ہو یا بلا عذر جان بوجھ کر توڑا ہو یا غلطی سے ٹوٹا ہو ہر صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے غلطی سے روزہ ٹوٹنے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ تو یاد تھا لیکن بے اختیار کوئی عمل ایسا ہو گیا جو روزے کے منافی تھا مثلا صبح صادق طلوع ہونے کے بعد تک کھاتے رہے یا غروب آفتاب سے پہلے یہ سمجھ کر روزہ افطار کرلیا کہ افطار کا وقت ہو چکا ہے یا روزہ یاد ہونے کے باوجود کلی کرتے وقت غلطی سے پانی حلق میں چلا گیا تو ان تمام صورتوں میں روزہ بھی جاتا رہا اور اعتکاف بھی ٹوٹ گیا ۔
اعتکاف ٹوٹ جانے سے کیا کرے
کسی وجہ سے اگر سنت اعتکاف ٹوٹ جائے تو اسکا حکم یہ ہے کہ جس دن اعتکاف ٹوٹا ہے صرف اس دن کی قضا واجب ہوگی پورے دس دن کی قضا واجب نہیں ۔ قضا کا طریقہ یہ ہے کہ اگر اس رمضان میں وقت باقی ہوتو اس رمضان میں کسی دن غروب آفتاب سے اگلے دن غروب آفتاب تک قضا کی نیت سے اعتکاف کر لیں اور اگر اس رمضان میں وقت باقی نہ ہو یا کسی وجہ سے اس میں اعتکاف ممکن نہ ہوتو رمضان کے علاوہ کسی بھی دن روزہ رکھ کر ایک دن کے لئے اعتکاف کیا جاسکتا ہے ۔ اور اگر اگلے رمضان میں قضاء کرے تو بھی قضا صحیح ہو جاۓ گی لیکن زندگی کا بھروسہ نہیں اس لئے جلد از جلد قضا کرنی چاہئے ۔سنت اعتکاف ٹوٹ جانے کے بعد مسجد سے باہر نکلنا ضروری نہیں بلکہ آخری عشرہ باقی دنوں میں نفل کی نیت سے اعتکاف جاری رکھا جاسکتا ہے اس طرح سنت موکدہ تو ادا نہ ہوگی لیکن نفلی اعتکاف کا ثواب ملے گا ۔
اعتکاف توڑنے کی صورتیں
اعتکاف کے دوران ایسی بیماری لاحق ہو جاۓ جس کا علاج مسجد سے باہر جانے کے بغیر ممکن نہ ہوتو اس صورت میں اعتکاف توڑنا جائز ہے اگر دوران اعتکاف بیمار ہو جاۓ اور بیماری زیادہ شدید قسم کی نہ ہو لیکن اعتکاف کرنے والا خود ہی معمولی بیماری یا کسی اور خوف کی وجہ سے مسجد سے چلا جاۓ تو اسکا اعتکاف ٹوٹ جاۓ گا عام بیماری کی حالت میں اعتکاف ہی میں رہ کر ڈاکٹر یا طبیب بلوا کر علاج کروایا جاۓ لیکن اگر بیماری اتنی شدید قسم کی ہو کہ اعتکاف کرنے والے کو اسپتال لے جاۓ بغیر چارہ نہیں تو اس صورت میں اعتکاف توڑنا جائز ہے ۔